دریا گنج معاملہ میں 8 نابالغوں کی رہائی، 20 افراد اب بھی پولیس حراست میں

کل جمعہ کے بعد پرسکون مظاہرہ کے بعد شام کو اچانک پرتشدد ہوگیا، جس کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 40 افراد کو حراست میں لیا ہے جن میں 8 نابالغ بھی تھے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کل جمعہ کی نماز کے بعد سی اے اے اور این آر سی کے خلاف لوگوں کا مظاہرہ ہوا جس میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور شام تک یہ مظاہرہ پوری طرح سے پر امن رہا لیکن دیر شام کو اچانک تشدد ہو گیا جس کے بعد پولیس نے 15 افراد کو گرفتار کیا جبکہ 8 نابالغ سمیت 40 لوگوں کو حراست میں لیا تھا۔ دیر رات احتجاج ختم ہونے کے بعد اور وکلاء کی مداخلت کے بعد نابالغ 8 بچوں کو رہا کر دیا گیا۔ واضح رہے پولیس ذمہ داران کا کہنا ہے کہ دہلی گیٹ میں جو بھی تشدد ہوا ہے اس میں باہر والے ذمہ دار ہیں۔

واضح رہے انگریزی روزنامہ ’دی ٹیلی گراف‘ میں شائع خبر کے مطابق پہلے وہاں موجود ایک دشینت نامی وکیل نے تھانہ میں جانے کی کوشش کی، لیکن ان کو اس کی اجازت نہیں دی گئی اس کے بعد کانگریس کی کونسلر یاسمین قداوئی کچھ وکلاء کے ساتھ تھانہ میں داخل ہوئیں اور کافی جدو جہد کے بعد ان نابالغوں کو رہا کیا گیا۔ خبر کے مطابق جو لوگ حراست میں لئے گئے تھے ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس بات کی شکایت کی کہ حراست کے دوران ان کے ساتھ مار پیٹ اور زیادتی کی گئی۔ جن لوگوں کو کل حراست میں لیا گیا تھا اس کے تعلق سے کہا جا رہا ہے کہ تین گھنٹے تک ان سے کسی کو نہیں ملنے دیا گیا۔


ایک ویب سائٹ کو پولیس نے آج بتایا کہ لوگوں کو تشدد کرنے اور پولیس والوں کو ڈیوٹی نبھانے سے روکنے کے خلاف طاقت کا بھی استعمال کیا گیا اور ان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یہ واضح نہیں ہے کہ مظاہرین میں کن لوگوں نے پتھراؤ شروع کیا اور کن لوگوں نے وہاں کھڑی گاڑیوں کو آگ لگائی۔ شام چار بجے تک قومی آواز کی ٹیم دہلی گیٹ پر موجود تھی اور علاقہ کے ڈی سی پی رندھاوا پوری طرح مطمئن تھے اور ان کو ایسا کوئی احساس نہیں تھا کہ وہاں تشدد ہو سکتا ہے، نہ ہی مظاہرین کی جانب سے بھی کوئی ایسا عمل سامنے آیا جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ تشدد ہو سکتا ہے۔ مظاہرین انتہائی پر امن انداز میں جامع مسجد سے لے کر دہلی گیٹ تک مارچ کرتے ہوئے گئے اور دہلی گیٹ پر لگے بیریکیڈ پر بیٹھ کر پر امن طریقہ سے نعرے بازی کی۔ اس بیچ مظاہرین نے کئی ٹی وی چینلوں کے خلاف اپنے غصہ کا ضرور اظہار کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔