میرٹھ: شوبھاپور گاؤں میں کبھی بھی ہو سکتا دلت-گوجر فساد

ایس سی-ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دلتوں نے 2 اپریل کو جو بھارت بند بلایا تھا اس کے دوران یو پی کا شوبھا پور گاؤں سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں رہا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

میرٹھ: شوبھا پور گاؤں ان دونوں موضوع بحث ہے۔ قبل ازیں جھارکھنڈ کا بھی ایک شوبھاپور نامی گاؤں خبروں میں زیر بحث رہ چکا ہے۔ جھارکھنڈ کے شوبھاپور گاؤں میں بچہ چوری کے الزام میں 3 افراد کو پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا تھا۔ اتر پردیش کا شوبھا پور ضلع میرٹھ میں ہے اور دہلی-ہری دوار قومی شاہراہ کے نزدیک واقعہ ہے۔ 5 ہزار کی آبادی والے گاؤں میں دلت طبقہ اکثریت میں ہے اور اب یہ گاؤں میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے علاقہ میں آتا ہے۔

ایس سی-ایس ٹی ایکٹ میں ترمیم کے خلاف دلتوں نے 2 اپریل کو جو بھارت بند بلایا تھا اس کے دوران یو پی کا یہ گاؤں سب سے زیادہ شہ سرخیوں میں رہا تھا۔ بند کے دوران یہاں کے نوجوان دلت رہنما کا قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد یہاں کافی کشیدگی پیدا ہو گئی اور کبھی بھی دلت-گوجر فساد ہوسکتاہے ۔

میرٹھ: شوبھاپور  گاؤں میں کبھی بھی ہو سکتا دلت-گوجر فساد
گوپی پیریا

بھارت بند کے دوران شوبھاپور گاؤں کی پولس چوکی کوہجوم نے نذر آتش کر دیا تھا اور بند کے دوران منظر عام پر آنے والی آگزنی کی وہ پہلی واردات تھی۔ پولس کا دعوی ہے کہ پولس چوکی میں آگزنی کے دوران ان کے ہتھیار، وردیاں اور دیگر اہم چیزیں بھی خاکستر ہو گئیں ہیں ، پولس نے ایف آئی آر میں بھی یہی باتیں درج کیں ہیں ۔ بعد ازاں میرٹھ، ہاپوڑ اور مظفر نگر ضلع سے تشدد اور آگزنی کے کئی واقعات سامنے آئے۔ شوبھا پور کے د لت، نام نہاد اعلیٰ ذاتوں کے سامنے نہ جھکنے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ نتیجتاً اکثر دلتوں اور دبدبے والی ذاتوں میں جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔

دونوں طبقوں کے درمیان گزشتہ 20 سالوں سے جھگڑا چل رہا ہے جس کی شروعات کرکٹ میچ کے دوران ہوئے معمولی تنازعہ سے شروع ہوا ۔ یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ایک نوجوان کی موت واقع ہو گئی تھی۔

اب یہاں جس نوجوان کا قتل ہوا ہے اس کا نام گوپی پیریا ہے اور اس کے والد اسی علاقہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر میرٹھ میونسپل کارپوریشن کے کونسلر (پارشد ) کا چناؤ لڑ چکے ہیں اور ہار بھی گئے تھے، تاہم انہیں ہرانے والا امیدوار بھی انہیں کے طبقہ سے وابستہ ہے۔

گوپی پیریا کو سابق رکن اسمبلی یوگیش ورما کا قریبی تصور کیا جاتا تھا ، جنہیں میرٹھ پولس نے بھارت بند کے دوران گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے۔ گوپی پیریا علاقہ کے دلت نوجوانوں میں کافی مقبول تھے اور وہ اکثر یوگیش ورما کے ساتھ نظر آتے تھے۔ شوبھا پور کے دلت نوجوان پولس کی کارروائی سے خوفزدہ ہیں اور بڑی تعداد میں نقل مکانی کر چکے ہیں۔

گوپی پیریا کو 6 گولی ماری گئیں تھیں ، گولی لگنے کے بعد بھی وہ 200 میٹر تک بھاگنے کے بعد زمین پر گر گئے۔ بدن میں تین گولیاں اتنی گہرائی تک پیوست ہو گئی تھیں کہ انہیں پوسٹ مارٹم کے دوران بھی نہیں نکالا جا سکا ، بعد میں لاش کو ایکسرے کے لئے بھیج دیا گیا۔

شوبھاپور کے دلتوں کا کہنا ہے کہ گوپی ان کا حوصلہ تھے اور ان کے قتل کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے کہ تمام دلتوں کو قتل کر دیا گیا ہو۔ اپنی موت سے قبل گوپی میڈیا میں مسلسل نظر آ رہے تھے ۔گوپی پر الزام ہے کہ بھارت بند کے دوران وہ پیش پیش تھے اور پولس چوکی نذر آتش کرنے کے دوران بھی وہ ہجوم کا حصہ تھے۔

گوپی کے بھائی پرشانت نے کہا ’’میرا بھائی چونکہ سماج کے ہر کام کو کرنے میں اگلی صف میں شامل رہتا تھا اس لئے وہ سب کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا۔ بھارت بند کے بعد گاؤں کے 83 دلت لڑکوں کی ایک فہرست واٹس ایپ پر ڈالی گئی جس میں میرے بھائی کا نام سب سے اوپر اور فہرست میں میرا نام 5 ویں مقام پر ہے۔ ‘‘ پرشانت نے مزید کہا ’’سوشل میڈیا پر نشر فہرست کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا کہ ان لڑکوں نے بھارت بند کے دوران سب سے زیادہ اچھل کود مچائی ہے اس لئے ان کا جلد علاج کیا جائے گا۔ اس فہرست کے نشر ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی گوپی کا قتل کر دیا گیا۔ ‘‘

گوپی کے قتل میں نامزد 5 ملزمان میں سے 2 کو پولس نے گرفتار کر لیا ہے۔ تمام ملزمان شوبھا پور کے ہی رہنے والے ہیں اور سبھی نام نہاد اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گوپی کے والد تاراچند کا کہنا ہے کہ ’’میرے بیٹے کو پستول سے گولی ماری گئی جبکہ پولس نے دیسی طمنچہ برآمد کیا ہے ۔ پولس نے اس حرکت سے یہ پیغام دیا ہے کہ ان کی ہمدردی قاتلوں کے ساتھ ہے۔ ‘‘

ایک مقامی رہائشی نے نام شائع نہ کرنے کی شرط پر بتاتا کہ ’’ بھارت بند کے دوران ہوئے تشدد کے بعد دلت مخالف گروپوں نے دلت نوجوانوں کی فہرست پولس کے سپرد کی تھی تاکہ پولس ان کے خلاف کارروائی کر سکے ۔ جیسے ہی گوپی کو اس کی اطلاع ہوئی اس نے اعتراض جتایا ۔اسی کے بعد جھگڑا شروع ہوا اور گوپی کا قتل کر دیا گیا ۔ چونکہ پولس کے مخبروں پر ہی قتل کا الزام ہے اس لئے پولس کا رویہ ان کے تئیں نرم ہے ۔ ملزما ن کو گرفتار کرنے میں بھی پولس کو کوئی دقت پیش نہیں آئی بلکہ ایک رہنما کی مفاہمت کے بعد انہیں پولس کے سپرد کیا گیا ۔

شوبھاپور گاؤں میں بھاری تعداد میں پولس فورس تعینات ہے ۔ قتل کے ایک ملزم منوج کو انتظامیہ نے سماجوادی پارٹی کا رکن قرار دیا ہے۔ تاہم سماجوادی پارٹی کے ضلع صدر راج پال سنگھ نے اس الزام کو مکمل طور پر خارج کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’منوج چودھری کا سماج وادی پارٹی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ہے ۔ وہ پارٹی کا نہ تو کبھی رکن رہا اور نہ ہی کوئی عہدیدار، اس طرح کی بات کرنے والے سراسر جھوٹ بول رہے ہیں۔

اس واقعہ کے بعد دلت-گوجر کے مابین کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔میرٹھ ضلع ماضی میں ان دونوں طبقوں کے درمیان خونی تصادم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ہستینا پور کی اس خونی رنجش میں درجنو ں اموات واقع ہوئی تھیں۔ ہستینا پور کے دیویندر سنگھ (56) کا کہنا ہے ’’30 سال بعد پھراسی طرح کی کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ ‘‘ میرٹھ کی فضا میں موجود اس زہر کے پیش نظر پولس کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کمر بستہ ہے۔ موسم گرما اپنے شباب پر آ رہا ہے اور یہاں کے نوجوان نقل مکانی کر کے کہیں اور چلے گئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔