دہلی: جامع مسجد شہریت قانون کے خلاف احتجاج کا ’نیا مرکز‘، روزانہ ہو رہا ’خاموش مظاہرہ‘
عشاء کی نماز کے بعد تقریباً ایک گھنٹے تک پرانی دہلی کے مرد و خواتین جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر ’خاموش مظاہرہ‘ کرتے ہیں اور اب ان کی حمایت میں دہلی کے دیگر علاقوں سے بھی لوگ جمع ہونے لگے ہیں۔
دہلی کی جامع مسجد اپنی ایک روشن تاریخ رکھتی ہے اور شہریت قانون کے خلاف پورے ملک میں ہو رہے مظاہروں کے دوران بھی اس کی اہمیت ظاہر ہو رہی ہے۔ جامع مسجد کے اطراف اور اس کی سیڑھیوں پر روزانہ ہزاروں لوگ پہنچ کر شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنا احتجاج درج کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کے دوران ایک قابل ذکر مظاہرہ پرانی دہلی کے باشندگان کر رہے ہیں جو اپنے پرامن مظاہرے کی وجہ سے لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ نوجوان طبقہ پر مشتمل یہ مظاہرہ روزانہ تقریباً 8بجے رات سے 9 بجے تک ہوتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں خواتین کی تعداد بھی خاطر خواہ ہوتی ہے۔
جامع مسجد میں روزانہ جمع ہونے والے مظاہرین میں سے ایک نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’گزشتہ 31 دسمبر سے ہم لوگ جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر پرامن احتجاج کر رہے ہیں۔ ہم شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف اپنی آواز اس لیے اٹھا رہے ہیں کیونکہ نہ صرف یہ آئین کے خلاف ہے بلکہ ہندوستان کے حقیقی باشندوں کو بھی باہر کا راستہ دکھانے والا ہے۔‘‘ ایک دیگر احتجاجی نے مظاہرے کے بارے میں تفصیل دیتے ہوئے کہا کہ ’’روزانہ جامع مسجد پر کم و بیش 400 افراد جمع ہوتے ہیں اور یہ مظاہرہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک کہ شہریت ترمیمی قانون واپس نہیں لے لیا جاتا۔ این آر سی کے خلاف بھی ہم آواز اٹھا رہے ہیں کیونکہ اس کے منفی اثرات آسام میں پوری طرح سے ظاہر ہو چکے ہیں۔‘‘
پرانی دہلی کے نوجوانوں کے ذریعہ ہو رہے اس ایک سے ڈیڑھ گھنٹے پر مشتمل مظاہرہ میں شامل لوگوں کی تعداد دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ جیسے جیسے لوگوں کو پتہ چل رہا ہے کہ یہاں پرانی دہلی کے لوگ بوقت شب جمع ہو رہے ہیں، وہ بھی یہاں پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 31 دسمبر سے اب تک ہوئے مظاہروں میں تین دن کینڈل مارچ بھی نکالے گئے۔ 8 اور 15 جنوری کو لال کنواں سے جامع مسجد کے لیے کینڈل مارچ نکلا جب کہ پہلا کینڈل مارچ 2 مارچ کو تراہا بیرم خان سے نکالا گیا تھا۔ کینڈل مارچ کے دوران غیر مسلم حضرات بھی کافی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔ کینڈل مارچ میں شامل ایک شخص کا کہنا ہے کہ ’’ہزاروں کی تعداد میں لوگ کینڈل مارچ میں اس لیے شامل ہو رہے ہیں تاکہ مودی حکومت تک یہ بات پہنچے کہ ہم شہریت قانون میں ترمیم سے خوش نہیں ہیں، ہم مذہب کی بنیاد پر کسی بھی تفریق کو پسند نہیں کرتے اور ہمیں کوئی بھی ایسی پالیسی منظور نہیں جو ہندو-مسلم بھائیوں کو لڑانے کی کوشش کرے۔‘‘
15 جنوری کو لال کنواں سے جامع مسجد کے لیے نکالا گیا کینڈل مارچ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل تھا۔ اس کینڈل مارچ کی خاص بات یہ تھی کہ جامع مسجد پہنچ کر مظاہرین نے جامعہ ملیہ اسلامیہ طلبا کے خلاف پولس بربریت کو بھی یاد کیا۔ واضح رہے کہ ٹھیک ایک ماہ قبل یعنی 15 دسمبر کو جامعہ کے طلبا پر پولس نے یونیورسٹی کیمپس میں داخل ہو کر قہر ڈھایا تھا۔ پرانی دہلی کے باشندوں اور کچھ دیگر مقامات سے جمع لوگوں نے جامع مسجد پر جمع ہو کر کچھ ڈرامے بھی پیش کیے جن میں ایک ڈرامہ جامعہ تشدد واقعہ پر مبنی تھا۔ اس ڈرامہ میں جامعہ کی بہادر طالبہ لدیدہ کے اس ویڈیو کو ڈرامے کے طور پر پیش کیا گیا جس میں وہ بے انتہا ہمت کے ساتھ اپنے ایک دوست کو پولس کے ڈنڈے سے بچاتی ہوئی نظر آتی ہے اور پورے ملک میں بہادری کی ایک علامت بن جاتی ہے۔
روزانہ ہو رہے اس مظاہرے کے ایک انتظام کار نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت کے دوران بتایا کہ ’’ہم لوگ پہلے جامع مسجد گیٹ نمبر ایک کے قریب ہیومن چین (انسانی زنجیر) بناتے تھے لیکن پولس کو اعتراض ہوا اور انھوں نے کہا کہ اس طرح مظاہرہ جاری رہا تو لوگوں کو حراست میں لے لیا جائے گا۔ بعد ازاں ہم لوگوں نے بات چیت کر کے جامع مسجد کی سیڑھیوں پر ’خاموش مظاہرہ‘ کا منصوبہ بنایا جس میں جامع مسجد انتظامیہ کی اجازت بھی لے لی گئی۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’عشاء کی نماز کے بعد ہم جامع مسجد کی سیڑھیوں پر پلے کارڈس اور بینر وغیرہ لے کر بیٹھ جاتے ہیں جس میں شہریت قانون و این آر سی کی مخالفت والے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ آخر میں ہم کھڑے ہو کر قومی ترانہ (جن گن من) پڑھتے ہیں اور پھر جے ہند بول کر تقریباً 9 بجے اپنے گھر چلے جاتے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ پرانی دہلی کی نوجوان خواتین و مردوں پر مشتمل روزانہ ہونے والا یہ ’خاموش مظاہرہ‘ اپنی آواز بلندی کے ساتھ اٹھا رہا ہے اور انتہائی منظم انداز میں بغیر کسی کو تکلیف پہنچائے ہو رہا ہے۔ پرانی دہلی سے نکالے گئے اب تک تین کینڈل مارچ کے لیے باضابطہ پولس کی اجازت بھی لی گئی تھی اور جامع مسجد کا راستہ طے کرتے ہوئے ٹریفک نظام میں کوئی گڑبڑی پیدا نہ ہو، اس کا بھی خاص خیال رکھا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Jan 2020, 6:43 PM