کشمیر میں پھر کرفیو جیسی پابندیاں، تاریخی جامع مسجد آٹھویں جمعہ کو بھی مقفل
وادی کشمیر میں جمعہ کے روز غیر معمولی ہڑتال کے ساتھ ساتھ گرمائی دارالحکومت سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات میں بھی کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں۔
سری نگر: وادی کشمیر میں جمعہ کے روز غیر معمولی ہڑتال کے ساتھ ساتھ گرمائی دارالحکومت سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ رہیں۔ اس دوران وادی میں 5 اگست کو دفعہ 370 کی منسوخی اور ریاست کی تقسیم کے خلاف شروع ہونے والی ہڑتال جمعہ کو 54 ویں دن میں داخل ہوگئی۔ موبائل فون، انٹرنیٹ اور ریل خدمات کی معطلی بھی جاری ہے۔
وادی کی کچھ مساجد بالخصوص سری نگر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں مسلسل آٹھویں جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ زائد از 600 سال قدیم یہ مسجد 5 اگست سے مقفل ہے اور اس کے اردگرد سینکڑوں کی تعداد میں سیکورٹی فورسز اہلکار تعینات ہیں جو کسی بھی شہری یا صحافی کو جامع مسجد کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ حریت کانفرنس (ع) چیئرمین میرواعظ مولوی عمر فاروق جو جامع مسجد میں جمعہ کا خطبہ دیتے تھے، کو اپنی رہائش گاہ میں نظر بند رکھا گیا ہے۔
ادھر انتظامیہ نے جمعہ کی صبح سری نگر کے سول لائنز میں تاریخی لالچوک کے گھنٹہ گھر کی طرف جانے والی تمام سڑکیں سیل کیں۔ اس کے علاوہ نزدیک میں واقع مائسمہ جو کہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے محبوس چیئرمین یاسین ملک کا گڑھ ہے، کی طرف جانے والی سڑکیں بھی خاردار تار سے سیل کی گئیں۔
وادی میں انتظامیہ کی طرف سے کرفیو جیسی پابندیاں ظاہری طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزرائے اعظم ہندوستان و پاکستان کے خطابات کے تناظر میں نافذ کی گئی ہیں۔ انتظامیہ کو خدشہ تھا کہ وزرائے اعظم ہند و پاک کے خطابات سے قبل کشمیر میں احتجاجی مظاہرے ہوسکتے ہیں۔ وادی میں کچھ جگہوں پر مبینہ طور پر سیاہ پرچم آویزاں کئے گئے ہیں۔ سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ احتیاط کے طور پر سری نگر کے پائین شہر اور سول لائنز کے کچھ حصوں میں پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ وادی کے کچھ قصبہ جات میں بھی پابندیاں نافذ کی گئی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جمعہ کی صبح نافذ کی گئی پابندیاں ہفتہ کی علی الصبح تک ہٹائی جائیں گی۔
یو این آئی کے ایک نامہ نگار جس نے جمعہ کی صبح سری نگر کے مختلف حصوں کا دورہ کیا، کے مطابق پائین شہر میں بیشتر سڑکوں پر خاردار تار بچھی تھی تاہم راہگیروں کو چلنے کی اجازت دی جارہی تھی۔ نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد کو چاروں اطراف سے سیل کیا گیا ہے اور کسی کو بھی اس کے نزدیک جانے کی اجازت نہیں دی جارہی تھی۔ نامہ نگار کے مطابق تاریخی لال چوک کی طرف جانے والی سڑکوں کو بربرشاہ، منور آباد، بتہ مالو، وومنز کالج، ڈل گیٹ، ایکسچینج روڑ اور دوسری جگہوں پر خاردار سے سیل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ہری سنگھ ہائی اسٹریٹ کو لال چوک سے جوڑنے والے امیرا کدل برج کو مکمل طور پر بند رکھا گیا ہے۔
موصولہ اطلاعات کے مطابق وادی بھر میں جمعہ کو مسلسل 54 ویں دن بھی ہڑتال رہی جس دوران سری نگر اور دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات و تحصیل ہیڈکوارٹروں میں دکانیں و تجارتی مراکز بند رہے جبکہ سڑکوں پر پبلک ٹرانسپورٹ کی آمدورفت معطل رہی۔ اطلاعات کے مطابق کچھ جگہوں پر احتجاجی نوجوانوں کی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔ جھڑپوں کے دوران کتنے افراد زخمی ہوئے یہ فوری طور پر معلوم نہیں ہوسکا۔
وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر پابندی بدستور جاری ہے۔ مواصلاتی خدمات پر پابندی کی وجہ سے اہلیان کشمیر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ پیشہ ور افراد کا کام اور طلباء کی پڑھائی بری طرح سے متاثر ہے۔ طلباء اور روزگار کی تلاش میں برسر جدوجہد نوجوان آن لائن فارم جمع نہیں کرپا رہے ہیں۔ وادی میں جموں خطہ کے بانہال اور شمالی کشمیر کے بارہمولہ کے درمیان چلنے والی ریل خدمات بھی 5 اگست سے لگاتار معطل ہیں۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ سروسز مقامی پولیس و سول انتظامیہ کی ہدایت پر معطل رکھی گئی ہیں اور مقامی انتظامیہ سے گرین سگنل ملتے ہی بحال کی جائیں گی۔
وادی بھر میں تعلیمی ادارے گزشتہ قریب دو ماہ سے بند پڑے ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے جو تعلیمی ادارے کھولے گئے ہیں ان میں طلباء کی حاضری صفر کے برابر ہے۔ اگرچہ سرکاری دفاتر کھلے ہیں تاہم ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان میں ملازمین کی حاضری بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ لوگ بھی دفاتر کا رخ نہیں کرپاتے ہیں۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے اور پتھرائو کے واقعات میں غیر معمولی حد تک کمی آئی ہے۔ تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین ہسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لئے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
وادی میں بی جے پی کو چھوڑ کر تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کو نظر بند رکھا ہے۔ نیشنل کانفرنس صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کیا گیا ہے۔ انہیں اپنے ہی گھر میں بند رکھا گیا ہے۔ علاحدگی پسند لیڈران بھی خانہ یا تھانہ نظر بند ہیں۔ وادی میں جاری موجودہ ہڑتال کی کال کسی جماعت نے نہیں دی ہے بلکہ یہ بغیر کال کی ہڑتال ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Sep 2019, 4:10 PM