ہلدوانی میں کرفیو میں نرمی، تشدد کے دو دن بعد امن کی جانب واپسی
اتراکھنڈ کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل لا اینڈ آرڈر نے اعلان کیا ہے کہ بن بھولپورہ اور اس کے قریبی علاقوں کو چھوڑ کر ہلدوانی میں کرفیو کو ختم کیا جا رہا ہے، تاہم کسی کو وہاں جانے کی اجازت نہیں ہے
دہرادون: اتراکھنڈ میں ہلدوانی کے بن بھولپورہ میں مبینہ غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مدرسے اور مسجد کو منہدم کرنے کے دوران ہونے والے تشدد کے بعد اب امن کا قیام ہو رہا ہے۔ خیال رہے کہ ہلدوانی تشدد میں 6 افراد مارے گئے تھے جبکہ 100 سے زیادہ گاڑیاں جلا دی گئی تھیں۔ جس کے بعد انتظامیہ نے سخت ایکشن لیتے ہوئے پورے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ تاہم اس واقعے کے دو دن بعد اب کرفیو میں نرمی کی جا رہی ہے۔
اس بارے میں اتراکھنڈ کے اے ڈی جی لا اینڈ آرڈر اے پی انشومن نے کہا کہ بن بھولپورہ اور آس پاس کے علاقوں کو چھوڑ کر ہلدوانی میں کرفیو ہٹایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی بن بھولپورہ جانے کی اجازت نہیں ہے اور پولیس کو اپنا کام کرنے دیں۔
یہ بھی پڑھیں : نواز یا عمران، کس کا ہوگا پاکستان! دونوں نے کئے جیت کے دعوے
رپورٹ کے مطابق پولیس تشدد برپا کرنے والے افراد کو تلاش کر رہی ہے اور انہیں جلد گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ عہدیدار نے بتایا کہ اس تشدد کے سلسلے میں 3 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، جس میں 16 لوگوں کو نامزد کیا گیا ہے اور 5 کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ملزمان کی شناخت کی جا رہی ہے۔
یاد رہے کہ میونسپل کارپوریشن اور پولیس انتظامیہ کی ٹیم جمعرات کو مسلم اکثریتی علاقے بن بھولپورہ میں غیر قانونی مدرسے اور مذہبی مقام کو منہدم کرنے پہنچی تو انہیں مشتعل ہجوم کا سامنا کرنا پڑا۔ موقع پر پتھراؤ اور اگزنی بھی کی جانے لگی تھی۔ اس تشدد میں 100 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہونے کے بعد سی ایم دھامی نے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ہدایت دی تھی۔ جمعرات کی شام تقریباً 4.30 بجے شروع ہونے والا تشدد پورے علاقے میں پھیل گیا۔
ابتدائی تحقیقات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کارروائی کرنے پہنچی پولیس انتظامیہ کی ٹیم نے پوری تیاریاں نہیں کی تھیں اور اس کارروائی میں جلدبازی کرنے کا بھی الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں اس کارروائی کے حوالے سے علاقے میں کشیدگی پائی جاتی تھی جسے انتظامیہ نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ چار روز قبل کشیدگی پھیلنے کے بعد بھی علاقے میں تجاوزات ہٹانے کے لیے جامع حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔