غریبوں پر ظلم اور امیروں پر رحم... دیوندر شرما

ریزرو بینک آف انڈیا نے حال ہی میں قصدا پیسے دبا کر بیٹھے امیر لوگوں کے ساتھ بینکوں کے معاہدہ کی راہ آسان کر دی ہے، لیکن ایسی ہی چھوٹ غریب کسانوں اور عام لوگوں کو کیوں نہیں؟

آر بی آئی، ریزرو بینک آف انڈیا / تصویر آئی اے این ایس
آر بی آئی، ریزرو بینک آف انڈیا / تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

کچھ سال پہلے کی بات ہے۔ ہریانہ کے ایک کسان نے انڈرگراؤنڈ پائپ ڈالنے کے لیے چھ لاکھ روپے کا قرض لیا تھا جسے وہ ادا نہیں کر پا رہا تھا۔ معاملہ عدالت پہنچا اور اسے دو سال کی قید اور 9.83 لاکھ روپے جرماہن کی سزا سنائی گئی۔

صرف ہریانہ میں ہی نہیں، حال کے سالوں میں ملک بھر میں بینکوں کی چھوٹی موٹی بقایہ رقم نہیں ادا کرنے کی وجہ سے بڑی تعداد میں کسانوں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اگر جیل نہیں بھیجا گیا تو بینک پہلے تو کسانوں کی ٹریکٹر جیسی منقولہ ملکیت ضبط کر لیتے ہیں اور اس کے بعد بھی بقایہ ادائیگی نہیں کی گئی تو کھیت ضبط کر لیے جاتے ہیں۔


ایسے میں ان چھوٹے چھوٹے ڈیفالٹر جو بیشتر معاملوں میں فصلوں کے خراب ہو جانے یا پھر قیمتوں کے زمین سونگھنے کی وجہ سے قرض واپس نہیں کر پاتے، کے دفاع میں آنے کی جگہ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) نے امیر بدمعاشوں، دھوکہ بازوں اور قصداً قرض نہ ادا کرنے والوں کے لیے ’ڈیفنس گارڈ‘ کی سہولت دستیاب کرانے کا فیصلہ کیا۔ فطری انصاف کے اصولوں کو درکنار کرتے ہوئے اس نے نیشنلائزڈ بینکوں کو قصدا غلطی کرنے والوں کے طور پر پہچانے گئے اکاؤنٹس کے لیے سمجھوتہ نمٹان یا پھر قرض رقم کو بٹہ کھاتے میں ڈالنے کی اجازت دے دی ہے۔ 12 مہینے کی کولنگ پیریڈ کے بعد یہ ڈیفالٹر جن کے پاس ادائیگی کرنے کی صلاحیت ہے، لیکن وہ ایسا نہیں کرتے ہیں، نئے قرض تک لے سکتے ہیں۔

اگر یہ جائز حل ہے، جیسا کہ آر بی آئی کہتا ہے، تو سب سے پہلا سوال تو یہی اٹھتا ہے کہ یہی فارمولہ کسانوں، ایم ایس ایم ای شعبہ اور متوسط طبقہ پر کیوں نافذ نہیں کیا گیا ہے جو گھر یا کار قرض لینے کے لیے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ٹیکس ادا کر اپنی محنت کی کمائی کے پیسے لگاتے ہیں؟ ورنہ مجھے کوئی وجہ نہیں نظر آتی کہ بینکوں، غیر بینکنگ فائنانس کمپنیوں (این بی ایف سی) اور مائیکرو فائنانس اداروں (ایم ایف آئی) کے کرایہ کے غنڈے آئے دن ڈیفالٹرس کی منقولہ ملکیت کو ضبط کرنے کے لیے زور زبردستی کی پالیسی کیوں اپنائیں گے؟ حال ہی میں ایک ٹول ناکہ پر ریکوری ایجنٹوں (غنڈوں) نے ایک ڈیفالٹر کی کار ضبط کر لی۔ وہیں ایک این بی ایف سی چیف نے جھارکھنڈ میں قرض نہ ادا کرنے والے ایک کسان کی حاملہ بیٹی کی موت کے لیے معافی مانگی تھی۔ اسے تب کچل دیا گیا تھا جب ریکوری ایجنٹ اس ٹریکٹر کے ساتھ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے جس کے لیے کسان نے قرض لے رکھا تھا۔


لیکن آر بی آئی کی نظریں تو دوسری طرف ہیں۔ میں اس بات سے حیران ہوں کہ آر بی آئی نے بینکوں کو قصداً قرض نہ ادا کرنے والوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی اجازت دینے والا خط بھلا کیسے جاری کر دیا؟ ایسے لوگوں کو تو قاعدے سے اب تک جیل میں ہونا چاہیے تھا۔ اور پھر جب آر بی آئی کے اس خط پر ہنگامہ ہوا تو معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جو ’نرم‘ وضاحت دی گئی، اس سے مزید سوال کھڑے ہو گئے۔ اس سے صرف یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ آر بی آئی کی ساری ہمدردی امیر ڈیفالٹرس کے لیے ہے۔ ایسے ڈیفالٹر جو بینکنگ ریگولیٹری کے اصول اور قاعدوں کی قطعی پروا نہیں کرتے۔ ورنہ مجھے مزید کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی کہ قصداً قرض نہ ادا کرنے والوں کی تعداد لگاتار بڑھتی جاتی۔ گزشتہ دو سالوں میں ان کی تعداد میں 41 فیصد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ ان کی تعداد بڑھ کر 16044 ہو گئی ہے اور ان پر بینکوں کا مجموعی طور پر 3.46 لاکھ کروڑ روپے بقایہ ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سات سالوں میں بینک دھوکہ دہی اور گھوٹالوں میں ہر دن 100 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ جو بھی ہو، کئی جان بوجھ کر قرض نہ ادا کرنے والوں، جن میں وجئے مالیا، میہل چوکسی اور للت مودی جیسے لوگ شامل ہیں، جو ملک چھوڑ کر بھاگ گئے ہیں، کو اب آر بی آئی کے اس رخ سے راحت ملے گی کہ بینک ان کے ساتھ سمجھوتہ کر سکیں گے۔ ان میں سے کئی کو بقایہ کی بڑی رقم کے بٹہ کھاتے میں جانے کا فائدہ ہوگا اور اس کے بعد بھی وہ آگے پھر سے قرض لینے کے اہل ہوں گے۔

کیا یہ ایسا نظام نہیں جو حقیقی معنوں میں اس طرح کی گڑبڑی کے لیے ذمہ دار ہیں! مجھے حیرانی ہے کہ آر بی آئی نے چھوٹی رقم کے بقایہ داروں، جن میں کسان بھی شامل ہیں، کے تئیں کبھی اتنی ہمدردی کیوں نہیں دکھائی؟ چھوٹے کسانوں کو جیل کی سزا کیوں بھگتنی پڑتی ہے جبکہ کاروبار میں امیر بدمعاشوں کو مستقل طور سے ضمانت مل جاتی ہے اور ان کے قرض کی رقم میں بھی بڑی تخفیف کر دی جاتی ہے اور اس لیے ان کے پاس گنوانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ وہ یومِ پیدائش منانا، مہنگی چھٹیاں منانا اور شاندار طرز زندگی جاری رکھتے ہیں۔ آر بی آئی کے حالیہ سرکلر سے انھیں بڑی راحت کا راستہ صاف ہو گیا ہے اور اب اس دھندے سے جڑے دھوکہ بازوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انھیں بس اتنا امیر ہونا ہے کہ وہ اس کلاس میں آ سکیں جس کی چاروں جانب بینک نے ایک سیکورٹی گھیرا تیار کر دیا ہے۔


کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ بینکنگ نظام ہی بڑھتی نابرابری کی اصل وجہ ہے۔ آخر کار اگر بینک بینکنگ نظام کو دھوکہ دینے والے قرض کنندگان کے ساتھ اس طرح کا سلوک جاری رکھتے ہیں، تو یہ صرف اس کھیل کو ظاہر کرتا ہے جو امیروں کو دولت اکٹھا کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ باصلاحیت ہیں، بلکہ اس لیے کہ بینک عوام کے پیسے سے انھیں فائدہ پہنچاتے رہتے ہیں۔ پہلے سے ہی بینکوں نے گزشتہ 10 سالوں میں 13 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے این پی اے کو بٹہ کھاتے میں ڈال دیا ہے اور قصداً قرض ادا نہ کرنے والوں کے لیے سمجھوتہ فارمولہ تیار کرنے کا بینکوں کو دیا گیا اختیار ان کے لیے سونے پر سہاگہ جیسا کام کرے گا۔

حالانکہ آل انڈیا بینک آفیسرس فیڈریشن اور آل انڈیا بینک ایمپلائی یونین آر بی آئی پالیسی کے ناقد رہے ہیں، اور بیشتر بزنس میڈیا اس کے حامی رہے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بھی کارپوریٹس کو فائدہ پہنچانے کا کوئی ایشو سامنے آتا ہے تو کارپوریٹ ماہرین معیشت کی ایک ٹیم اچانک سامنے آ کر اس کا دفاع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہو جاتی ہے، بھلے ہی وہ فیصلہ کتنا بھی غلط کیوں نہ ہو۔


یہ تب ہوا، جب آکسفیم انٹرنیشنل نے بڑی ہوتی نابرابریوں کو کم کرنے کے لیے ملکیت ٹیکس لگانے کے لیے کہا۔ ہندوستان میں کچھ ماہرین معیشت نے تب کہا تھا کہ امیروں کے ایک چھوٹے طبقہ کے اوپر ملکیت ٹیکس بڑھانا درست نہیں ہوگا۔ یہ بھی اتنا ہی حیران کرنے والا ہے کہ کیسے کچھ ماہر معیشت آر بی آئی کی ہدایت کو درست ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ قرض کی وصولی کرتے وقت بینک کو اس بات میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہیے کہ ڈیفالٹ قصداً کیا گیا یا انجانے میں، یا پھر کسی دیگر ارادے سے۔

اگر ایسا ہے، تو مجھے حیرانی ہے کہ متوسط طبقہ کے سرمایہ کاروں اور کسانوں کے لیے اس استثنائیت کی اجازت کیوں نہیں ہے؟ اگر کسانوں اور متوسط طبقہ کے ڈیفالٹرس کو یکساں حقوق ملتے ہیں تو آپ انہی ماہرین معیشت کو اس پالیسی پر سوال اٹھاتے ہوئے دیکھیں گے۔ مثلاً، یہ حیرت انگیز نہیں ہے کہ میڈیا میں وہ ماہرین اور دیگر لوگ جنھوں نے کرناٹک میں روڈویز بسوں میں خواتین کے لیے مفت سفر پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے ریاستی حکومت کو سالانہ 4000 کروڑ روپے کا خرچ آئے گا، جب سوال پوچھا جاتا ہے تو وہ واضح طور سے خاموش ہو جاتے ہیں۔ 3.46 لاکھ کروڑ روپے کے بٹہ کھاتے میں ڈالے جانے کی امید ہے اور وہ بھی جان بوجھ کر قرض نہ ادا کرنے والے ایک طبقہ کے لیے۔ انھیں اس ہمدردی سے کوئی دقت نہیں ہے، لیکن وہ ہمیشہ غریبوں کے لیے اعلان کردہ آسانیوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔


میں نے سوچا کہ آر بی آئی کم از کم غریب مزدوروں کے خلاف اس طرح کے تعصب سے دور رہے گا۔ حالانکہ اس کے برعکس متنازعہ نوٹس جو بینکنگ سسٹم کے بدمعاشوں اور دھوکہ بازوں کے لیے ایک حفاظتی لائف لائن فراہم کرتا ہے، واضح طور سے ظاہر کرتا ہے کہ آر بی آئی کو بہت کچھ سیکھنا ہے اور شاید ’دہرے پیمانے‘ کو روکنے کے لیے ایک ٹھوس قدم اٹھانے کی ضرورت جو ہر حالت میں امیروں کی طرفداری کرتا ہے۔ طرح طرح کے معاشی فائدے اور نیشنل بیلنس شیٹ کو بگاڑنے اور اخلاقی خطرہ بننے کے لیے غریبوں کی مذمت کرنا مناسب نہیں۔

(مضمون نگار دیوندر شرما زرعی پالیسی کے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔