سی آر پی ایف کیمپ معاملہ: تین مسلم نوجوان دہشت گردی کے الزامات سے 12 سال بعد باعزت بری
اتر پردیش کے رامپور شہر میں واقع سی آر پی ایف کیمپ پر ہوئے دہشت گردانہ معاملے میں 12سالوں کے طویل انتظار کے بعد مقدمہ کا اختتام ہوا اور 3 ملزمین کو ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر بری کر دیا گیا
نئی دہلی: اتر پردیش کے رامپور شہر میں واقع سی آر پی ایف کیمپ پر ہوئے دہشت گردانہ معاملے میں جمعہ کے روز بالآخر 12 سالوں کے طویل انتظار کے بعد مقدمہ کا اختتام عمل میں آیا جس کے دوران عدالت نے ایک جانب تین ملزمین کو ناکافی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر دہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا وہیں بقیہ پانچ ملزمین کو قصور وار ٹہرایا ، عدالت ملزمین کی سزا کا تعین کل کریگی۔
یہ اطلاع ملزمین کو قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعتہ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے دی۔ جن ملزمین کو عدالت نے قصور وار ٹہرایا ہے ان کے نام عمران شہزاد،محمد فاروق،صباح الدین،محمد شر یف،جنگ بہادر ہیں ۔
گلزار اعظمی نے کہا کہ ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج سنجے سنگھ نے آج سخت حفاظتی بندوبست میں فیصلہ صادر کیا ،فیصلہ سنائے جانے کے وقت عدالت میں ملزمین اور ان کے اہل خانہ موجود تھے جبکہ اس معاملے کی پیروی کرنے والے دفاعی وکلاء بھی موجود تھے۔
خصوصی جج نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ ملزمین محمد کوثر، گلاب خان اور فہیم انصاری کے خلاف ملک دشمن سرگرمیوں اوردہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزامات نہیں ملے ہیں لہذا انہیں باعزت بری کیا جاتا ہے حالانکہ عدالت نے ملزم فہیم انصاری کو 420 کے معاملے میں قصور ٹہرایا ہے لیکن اس دفعہ کے تحت ملنے والی سزا سے زیادہ وقت فہیم انصاری جیل میں گذارچکا ہے لہذ اسے جیل سے رہائی ملنے کے قومی امکانات ہیں ، عدالت کل فہیم انصاری کی 420 معاملے میں سزا کا تعین کریگی۔
انہوں نے بتایا کہ دوران حتمی بحث جمعیۃ علماء کی جانب سے مقرر کردہ دفاعی وکیل ایم ایس خان نے عدالت کو بتایا تھاکہ اس معاملے میں آرمس ایکٹ کے اطلاق کے لیئے ضروری اجازت نامہ Sanction ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی بجائے انسداد دہشت گرد دستہ نے خود ہی جار ی کردیا جو قانوناً درست نہیں ہے نیز عدالت میں سرکاری گواہوں نے ملزمین کی شناخت بھی نہیں کی۔
گذشتہ کئی سماعتوں پر ہونے والی بحث کے دوران ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کی نظیر بھی پیش کی تھی جس میں بتایا گیا ہے کہ قانونی اجازت نامہ میں خامیاں ہونے کا ملزمین کو فائدہ ملنا چاہئے نیز نچلی عدالت کو ثبوت وشواہد کے ساتھ ساتھ اس طرح کی تکنیکی باتوں کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیئے۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلہ میں سی آرپی ایف کیمپ رام پور میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کے مقد مے کی سماعت چھ ماہ کے اندرمکمل کر نے کا حکم جا ری کیا تھا لیکن ججوں کی منتقلی او ر گواہوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے معاملہ کی سماعت چھ ماہ گذر جانے کے بعد بھی مکمل نہیں ہوسکی تھی آج بالآخیر خصوصی عدالت نے اس قدیم مقدمہ میں اپنا فیصلہ سنا دیا۔
سی آرپی ایف کیمپ رام پور میں31 دسمبر 2007کویہ واقعہ پیش آیا تھا جسمیں سات سی آرپی ایف کے جوان اور ایک اجنبی شخص فا ئر نگ میں ہلاک ہو ئے تھا نیز ملزمین کو جائے واردات سے گرفتار نہیں کیا گیا تھا بلکہ کچھ دنوں کے بعد اس مقدمہ میں رام پور،مراداباد،اور ممبئی سے آٹھ ملز مین کو ما خو ذ کیا گیا جن میں عمران شہزاد،محمد فاروق،صباح الدین،محمد شر یف،جنگ بہادر،محمد قیصر،گلاب خان،فہیم انصاری شامل ہیں۔
صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سیّد ارشد مدنی نے بارہ سال تک دہشت گردی کے الزامات میں قید بامشقت کی سزا پانے والے محمد کوثر، گلاب خان اور فہیم انصاری کورٹ کے ذریعے بری کیے جانے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ قانون و انصاف کی جیت ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کا ایک اور واضح ثبوت ہے کہ تفتیشی ایجنسیاں اور افسران کس طرح سے بے قصور مسلمانوں کو دہشت گردی کے فرضی معاملات میں پھانس کر ان کی زندگی اور کیریئر کو برباد کررہی ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی یکے بعد دیگرے سازش میں مصروف ہیں۔
مولانا مدنی نے نام نہاد قومی میڈیا کی جانب داری پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اکثر میڈیا خاص طور سے الیکٹرانک میڈیا دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیے گئے مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کو انتہائی اہم اور بڑی خبر بنا کر پیش کرتا ہے اور جب یہی لوگ عدالت سے باعزت بری ہوجاتے ہیں تو میڈیا ان کو قطعاً نظرانداز کردیتا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ کس طرح فسطائی طاقتوں کی سوچ اور نظریے کے زیر اثر ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند بلامذہب و ملت مظلومین کو انصاف دلانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔ دوسری جانب انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ استغاثہ کے سست رویہ اور ہندوستانی عدلیہ کے فرسودہ نظام کی وجہ سے بے قصوروں کے زندگی کے بارہ سال جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذارنے پڑے ۔ مولانا مدنی نے مزید کہا کہ عدالت کا حتمی فیصلہ آجانے کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع ہوں گے ہمیں امید ہی نہیں بلکہ یقین کامل ہے کہ بقیہ ملزمین بھی ہائی کورٹ سے باعزت رہا ہوجائیں گے۔
گلزار اعظمی نے دہلی سے مقدمہ کی سماعت پر رام پور عدالت جاکر اپنی خدمات پیش کرنے والے ایڈوکیٹ ایم ایس خان، مقامی ایڈوکیٹ ضمیر رضوی او ر دیگر کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہوں نے انتہائی دیانت داری سے مقدمہ کو لڑا -یہ اطلاع آج یہاں ممبئی میں قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار احمد اعظمی نے اخبار نویسوں کو دی ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔