ہریانہ: کمزور پڑ رہا امت شاہ کا انتخابی بگل، سرسا کی سنسان سڑکوں اور خالی کرسیوں نے بڑھائی بی جے پی کی بے چینی

لوک سبھا انتخاب سے 8 ماہ قبل بی جے پی ہریانہ میں دھماکہ دار انتخابی مہم کا آغاز کرنا چاہ رہی تھی، لیکن 18 جون کو سرسا میں ہوئی امت شاہ کی ریلی کی تصویروں نے پارٹی کی امیدوں پر ابھی سے پانی پھیر دیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;دھیریندر اوستھی</p></div>

تصویردھیریندر اوستھی

user

قومی آواز بیورو

ہریانہ کے ایک سرے پر واقع سرسا میں بی جے پی کے مبینہ مردِ آہن امت شاہ کا سنسان سڑکوں نے استقبال کیا۔ کسانوں، سرپنچوں اور مخالف پارٹیوں کے لیڈران کی مخالفت کے خوف سے سیاہ کپڑوں پر لگائی گئی پابندی کے باوجود لوگوں کی جیبوں میں کالا رومال تک ڈھونڈنے کے لیے پسینہ بہاتے ہزاروں پولیس اہلکاروں نے کرسیاں بھرنے کی بھی خوب کوشش کی، لیکن ناکامی ہاتھ لگی۔ نہ بے روزگاری پر کوئی بات ہوئی اور نہ مہنگائی کا تذکرہ۔ الٹا مردِ آہن کی آمد سے پہلے کسانوں اور سرپنچوں کے ساتھ مخالف پارٹیوں کے لیڈران کی ہوئی دھر پکڑ سے ہریانہ میں بی جے پی کے انتخابی بگل کا یہ آغاز عوام کے سوالات کی ایک اور طویل فہرست ضرور چھوڑ گیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;دھیریندر اوستھی</p></div>

تصویر دھیریندر اوستھی

لوک سبھا انتخاب سے تقریباً 8 ماہ قبل بی جے پی ہریانہ میں دھماکہ دار انتخابی مہم کا آغاز کرنا چاہ رہی تھی۔ اس کے لیے تاریخ منتخب کی گئی 18 جون اور جگہ ریاست کے ایک سرے پر واقع سرسا شہر۔ انتخابی بگل کے آغاز کی ذمہ داری لی بی جے پی میں نمبر دو کی حیثیت رکھنے والے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے۔ ایک طرف راجستھان اور دوسری طرف پنجاب کے مالوا سے گھرے سرسہ شہر کے انتخاب کے پیچھے ایک تیر سے تین نشانے سادھنا تھے۔ مطلب امت شاہ کی ریلی کی گونج نہ صرف ہریانہ میں سنائی دے، بلکہ انتخابی ریاست راجستھان اور پنجاب تک اس کی دھمک پہنچانا مقصد تھا۔


پنجاب کے انچارج اور راجستھان سے آنے والی بی جے پی ہائی کمان کی گڈ لسٹ میں شامل مرکزی وزیر گجیندر سنگھ شیخاوت کی موجودگی اس بات کی تصدیق کر رہی تھی۔ لیکن حالات ایسے بن گئے کہ سارے تیر خود بی جے پی کی طرف ہی مڑتے دکھائی دیئے۔ پہلی بار سرسا پہنچے امت شاہ سے تمام سوالات کے جواب مانگ رہے اس پسماندہ علاقہ کو جواب تو نہیں ملے، بلکہ سوالوں کی فہرست مزید طویل ہو گئی۔ عام طور پر کسی بڑے لیڈر کی آمد پر نظر آنے والی بھیڑ اور لوگوں کی آپا دھاپی کی جگہ سرسا شہر کی سڑکوں پر پسرا سناٹا سب کچھ بیان کر رہا تھا۔ ریلی کے لیے دیئے گئے وقت 4 بجے سے محض نصف گھنٹے پہلے ریلی کی جگہ اناج منڈی میں خالی پڑی کرسیاں بی جے پی لیڈروں کو بے چین کر رہی تھیں۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;دھیریندر اوستھی</p></div>

تصویر دھیریندر اوستھی

بار بار اسٹیج سے لوگوں کو ریلی والی جگہ پر پہنچنے کی اپیل کی جا رہی تھی۔ باوجود اس کے لوگوں کی ریلی سے بے رخی بی جے پی لیڈروں کی پریشانی اور بڑھا رہی تھی۔ سرسا سے ہی تعلق رکھنے والے حکومت میں بجلی وزیر رنجیت سنگھ چوٹالہ اور بی جے پی ٹکٹ پر انتخاب لڑ چکے اور حکومت کو حمایت دے رہے ہریانہ لوک ہت پارٹی کے واحد رکن اسمبلی گوپال کانڈا کے بھائی گوبند کانڈا لوگوں سے آنے کی درخواست کر رہے تھے۔ 5 بجے تک یہ پریشانی مزید بڑھ چکی تھی۔ امت شاہ شہر میں آ چکے تھے اور انھیں سننے کے لیے بھیڑ ندارد تھی۔ تریپورہ کے سابق وزیر اعلیٰ اور ہریانہ بی جے پی انچارج بپلب دیب کی اسٹیج پر چہل قدمی ان کی بے چینی ظاہر کر رہی تھی۔ وہ بار بار کچھ ہدایات دے رہے تھے۔ حالات ایسے تھے کہ اس وقت تک بی جے پی کا مینجمنٹ لوگوں کو ریلی والی جگہ تک لانے کے لیے جی توڑ محنت کر رہا تھا۔ پولیس کے افسر بھی اس محنت میں شامل ہو گئے۔ مرکزی وزیر گجیندر شیخاوت ڈی جی پی سے کچھ بات کرتے نظر آئے۔ وقت بڑھنے کے ساتھ لوگوں کو پکڑ پکڑ کر اندر لایا جانے لگا۔ ترجیح یہ تھی کہ کم از کم اسٹیج کے سامنے لگی کرسیاں تو بھر جائیں۔


حالات کا اندازہ ایسے لگائیں کہ آخر میں آگے کی کرسیوں میں وی آئی پی پاس لیے بھٹہ مزدور بیٹھے دکھائی دیئے۔ بتایا گیا کہ یہ کانڈا کے اینٹ بھٹہ میں کام کرنے والے مزدور ہیں۔ یہ حالت تب تھی جب سرسا شہر میں کانڈا برادران کی اچھی دھمک ہے۔ جانکاروں کی مانیں تو تقریباً چار ہزار کرسیاں ریلی والی جگہ پر لگائی گئی تھیں، وہ بھی نہیں بھر پائیں۔ اس میں بھی پولیس اہلکاروں کو ملا کر کئی ہزار تو حکومت کے لوگ وہاں بتائے جا رہے تھے۔ کھٹر حکومت پر خوف ایسا تھا کہ امت شاہ کی ریلی کی مخالفت کا اعلان کر چکی کسان تنظیموں اور ای-ٹنڈرنگ و رائٹ ٹو ریکال کی مخالفت کر رہے سرپنچ ایسو سی ایشن کے لوگوں کو دو دن پہلے ہی پولیس کے نوٹس پہنچ چکے تھے۔ سنیوکت کسان مورچہ ایسو سی ایشن کے لوگوں کو دو دن پہلے ہی پولیس کے نوٹس پہنچ چکے تھے۔ سنیوکت کسان مورچہ اور سرپنچ ایسو سی ایشن کے لیڈران کے گاؤں میں پولیس نے ڈیرا جما دیا تھا۔ ریلی سے پہلے دھر پکڑ کی گئی۔ یہاں تک کی مخالف پارٹیوں کے لیڈران کو بھی نہیں بخشا گیا۔

سرسا سے سابق رکن اسمبلی ہوشیار لال شرما کے بیٹے اور کانگریس لیڈر رام کمار شرما اور عام آدمی پارٹی کے سابق ریاستی صدر نوین جئے ہند کو ہاؤس اریسٹ کر لیا گیا۔ چپے چپے پر سی آئی ڈی کے لوگ تعینات تھے۔ جدھر نظر ڈالو سی آئی ڈی کے لوگ ہی نظر آ رہے تھے۔ ہر شخص کو شبہات کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ آدھے ہریانہ کی پولیس کو بلا لیا گیا تھا۔ ریلی سے پہلے آس پاس کی دکانوں کو جبراً بند کروایا گیا۔ لوگوں نے الزام لگایا کہ جن دکانداروں نے بند کرنے سے انکار کر دیا، ان کا سامان پولیس اٹھا لے گئی۔ ریلی والی جگہ کے باہر اعلان ہو رہا تھا کہ لوگ ایک جگہ جمع نہ ہوں۔ امت شاہ کی مخالفت کو لے کر حکومت اتنی خوفزدہ تھی کہ سیاہ کپڑے اور رومال تک پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہاں تک کہ نیلی شرٹ پہنے صحافیوں تک سے سوال کیا گیا کہ اسے تو پہن کر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ کالا پائجامہ پہنے خاتون صحافی تک سے پولیس نے سوال کیا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر&nbsp;دھیریندر اوستھی</p></div>

تصویر دھیریندر اوستھی


امت شاہ کی مخالفت کو دبانے اور ریلی ہو جانے کے لیے ریاست کی بی جے پی حکومت نے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھی، لیکن اگر کچھ نہیں ہوا جو ہونا چاہیے تھا تو وہ تھا عوام کے سوالات کے جواب۔ ہریانہ کے سب سے بڑے سوال نہ تو بے روزگاری پر کسی کی زباں سے ایک لفظ نکلا اور نہ مہنگائی پر۔ کشمیر اور دفعہ 370 ختم کرنے کا تذکرہ کرتے کرتے امت شاہ کو مردِ آہن کے تمغے سے ضرور نواز دیا گیا۔ وہیں امت شاہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی تعریف کرتے کرتے ہندوستانی طلبا کو یوکرین سے لانے کے لیے روس اور یوکرین کے درمیان 3 دن تک جنگ رکوانے کے جھوٹے کو پھر ایک بار دہرا دیا۔ وزارت داخلہ کے اس طرح کی کسی بھی بات کو نکارے جانے کو انھوں نے کنارے رکھ دیا۔ دُشینت چوٹالہ کی جن نایک جنتا پارٹی کو اس ریلی کے لیے دعوت نہ دے کر بھی بی جے پی نے مستقبل کی تصویر صاف کر دی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔