لوک سبھا نتائج سے قبل این ڈی اے میں پڑنے لگا شگاف، بی جے پی میں کھلبلی

بی جے پی کے دو اہم لیڈروں سبرامنیم سوامی اور رام مادھو کے ذریعہ اس الیکشن میں بی جے پی کے اپنے دَم پر حکومت بنانے کے لیے اکثریت سے دور رہنے کے اعتراف سے این ڈی اے کے درمیان کھلبلی مچی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اوما کانت لکھیڑا

اتر پردیش میں انوپریا پٹیل کا اپنا دل، پنجاب میں اکالی دل، مہاراشٹر میں شیو سینا اور تمل ناڈو میں اے آئی اے ڈی ایم کے کی حالت خستہ ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ذرائع کا واضح طور پر ماننا ہے کہ این ڈی اے کی ساتھی پارٹیوں کی کمزور حالت کے سبب لوک سبھا میں ضروری تعداد حاصل کرنا ٹیڑھی کھیر ثابت ہو سکتا ہے۔

پی ایم مودی اور بی جے پی کو تو اب اکالی دل جیسے چھوٹے ساتھی پارٹی بھی آنکھیں دکھانے لگے ہیں۔ اکالی دل کے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ نریش گجرال مودی اور راہل گاندھی کے درمیان شروع جنگ سے ناخوش ہیں۔ وارانسی میں نامزدگی داخل کرنے کے دن اکالی دل کے بزرنگ لیڈر پرکاش سنگھ بادل کے پیر چھونے کی وزیر اعظم مودی کی کوشش کے باوجود اکالی کیڈر اس بات کو لے کر ناخوش ہے کہ بے روزگاری اور کسانوں کے ایشوز پر خاموشی کے ساتھ ساتھ نوٹ بندی و جی ایس ٹی کے منفی اثرات سے عام لوگوں و تاجروں میں موجود ناراضگی پر پردہ ڈالنے سے کانگریس کی انتخابی تشہیر کو طاقت مل رہی ہے۔ اکالی دل کی بی جے پی سے ناراضگی کوئی نئی نہیں ہے۔ مرکز میں وزیر ہرسمرت کور بادل اور ان کے شوہر سکھبیر بادل مودی حکومت میں اکالی دل کو پوری اہمیت نہ ملنے سے ناراض رہے ہیں۔


اُدھر بہار میں دو مراحل کے لیے ووٹنگ باقی رہتے ہوئے وہاں کی اہم این ڈی اے شراکت دار پارٹی جنتا دل یو کے ایم ایل سی اور ترجمان غلام رسول بلیاوی نے ریاست میں این ڈی اے کی سبقت کا سہری نتیش کمار کو دیتے ہوئے انھیں پی ایم بنانے کا مطالبہ کر کے بی جے پی کے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہے۔ حالانکہ بی جے پی ذرائع نے اس مطالبہ کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنتا دل یو لیڈران پارٹی کے مسلم کیڈر کو خوش رکھنے کے لیے اس طرح کے بیان پہلے بھی دیتے رہے ہیں۔

وزیر اعظم مودی کی گزشتہ ہفتہ دربھنگہ ریلی کے دوران ’بھارت ماتا کی جے‘ کے مودی کے نعرہ کے درمیان نتیش کمار کے اسٹیج پر خاموشی سے بیٹھے رہنے کے واقعہ پر جنتا دل یو کے جنرل سکریٹری اور سابق رکن پارلیمنٹ کے سی تیاگی نے کہا ’’عوامی اسٹیج پر بھارت ماتا کی جے کا نعرہ بی جے پی کے لوگ آر ایس ایس کے زمانے سے لگاتے رہے ہیں۔ وہ لگائیں، لیکن ہم نہیں لگا سکتے، کیونکہ سماجوادیوں کے پاس عوام، کسان، مزدور اور غریبوں کو حق دلانے کے نعرے ہیں جو پہلے کی طرح آج بھی اہمیت کے حامل ہیں۔‘‘


مہاراشٹر میں بی جے پی کا سب سے اہم ہندوتوا ساتھی شیو سینا نے ابھی انتخابات کی وجہ سے جنگ بندی کر رکھی ہے، لیکن مہاراشٹر کی سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شیو سینا کئی اہم سیٹوں پر کانگریس-این سی پی کے مقابلے میں پیچھے نظر آ رہی ہے۔ ایسی زمینی رپورٹ بھی ہے کہ شیو سینا کا بی جے پی کے ساتھ ووٹ ٹرانسفر اس رفتار سے نہیں ہوئی جیسی کہ امید تھی۔ وجہ یہ بھی ہے کہ مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے مودی حکومت کی پانچ سال کی کارگزاریوں کا کالا چٹھا اپنی ریلیوں میں جن تیوروں کے ساتھ کھولا ہے، اس سے شیو سینا کے ساتھ بی جے پی بھی بہت مشکل میں ہے۔

شیو سینا کو امید کے مطابق سیٹیں نہ ملنے سے بھی حالت خراب ہوئی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ گزشتہ پانچ سالوں سے بے حد تلخ رشتوں کے سبب بی جے پی میں یہ اندیشہ پیدا ہو رہا ہے کہ مودی کی اقتدار میں واپسی کا نمبر کمزور پڑا تو شیو سینا پہلی پارٹی ہو سکتی ہے جو اس سے پیچھا چھڑائے گی۔ اس کے علاوہ ذرائع بتاتے ہیں کہ مہاراشٹر میں چند ماہ بعد ہونے والے اسمبلی انتخابات میں شیو سینا وزیر اعلیٰ کا عہدہ ہر قیمت پر چاہتی ہے۔


جنوبی ہند کی سب سے بڑی ریاست تمل ناڈو میں برسراقتدار اے آئی اے ڈی ایم کے پارٹی کے خلاف عوام کی زبردست ناراضگی سے بھی بی جے پی پریشان ہے کیونکہ اس بار وہاں بی جے پی کا اس کے ساتھ ہی اتحاد ہے۔ تمل سیاست کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں بی جے پی کو خود بھی بڑا جھٹکا لگے گا کیونکہ ڈی ایم کے-کانگریس کے مضبوط اتحاد کے آگے اے آئی اے ڈی ایم کے-بی جے پی بالکل کمزور نظر آ رہی ہیں۔ مانا جا رہا ہے کہ تمل ناڈو کی 39 اور پڈوچیری کی ایک سیٹ پر شکست کا جھٹکا دہلی میں اقتدار کی دہلیز تک پہنچنے کی بی جے پی کی امیدوں کو چکناچور کر سکتا ہے۔

آسام میں شہریت ترمیمی بل کے ذریعہ سیاسی گرمی برداشت کر رہے آسام گن پریشد (اے جی پی) اور بوڈو پیپلز فرنٹ (بی پی ایف) کے ساتھ سیٹوں کے تال میل سے تنازعات کا سیاسی پارا تھم نہیں پایا۔ ان دونوں پارٹیوں کا مینڈیٹ خطرے میں ہے۔ ان دونوں کو سمجھوتے میں 3 اور 1 سیٹ ملی ہیں۔ انتخابی تجزیے بتا رہے ہیں کہ ان دونوں کا ہی سیٹ نکال پانا بہت مشکل ہے۔


اُدھر اڈیشہ میں بی جے ڈی پہلے ہی اپنی طاقت ظاہر کر چکا ہے۔ وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک اپنے پتّے الیکشن کے نتائج کے پہلے نہیں کھولنے جا رہے۔ آندھرا اور تلنگانہ میں بالترتیب جگن موہن ریڈی اور وزیر اعلیٰ کے. چندر شیکھر راؤ، قریبی ذرائع کے مطابق دونوں لیڈر اس بار کمزور و تنازعات میں پھنسی مودی-امت شاہ کی بی جے پی کو آبِ حیات دینے کی کوئی پیش قدمی قطعی نہیں کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 May 2019, 10:10 AM