گائے، ڈی جے اور ایک صدی... سہیل انجم

خاموشی پرامن ہائی سوسائٹیز کا حصہ بن گئی ہے، جہاں کے باشندے خود کو ان پرشور آوازوں سے محفوظ بنانے میں کامیاب ہیں اور وہ نفرت انگیز نعروں اور گانوں سے اتنے واقف نہیں ہیں جتنے کہ دوسرے علاقوں کے لوگ

<div class="paragraphs"><p>رام نومی کا جلوس / آئی اے این ایس</p></div>

رام نومی کا جلوس / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مقدس گائے کے تحفظ کے نام پر اور پرشور آواز میں ڈی جے بجا کر سماجی امن و امان کو آگ لگانا آج کا نیا مظہر ہے۔ جی نہیں یہ کوئی نیا نہیں بلکہ ایک صدی پرانا تماشہ ہے۔ بلکہ یہ تماشہ ایک صدی سے بھی زائد عرصے سے جاری ہے۔ کبھی حکمراں طبقہ اسے ہوا دیتا ہے تو کبھی نام نہاد مذہبی طبقہ۔ اس کا مقصد اپنے اہداف کی حصولیابی ہے۔ خواہ اس کوشش میں لوگوں کی جانیں ہی کیوں نہ ضائع ہو جائیں۔ یہ صورت حال گزشتہ دس برسوں میں زیادہ سنگین ہو گئی ہے۔ اسے اقتدار کے استحکام کا ایک ذریعہ مان لیا گیا ہے۔ اس میں مذہب کی آمیزش کر کے اسے جذباتی بنا دیا گیا ہے۔ ایک فرقے کے لوگ دوسرے فرقے پر اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے اس حربے کو خوب استعمال کر رہے ہیں۔ آگے یہ صورت حال کہاں تک جائے گی اور کتنی خطرناک شکل اختیار کرے گی کہا نہیں جا سکتا۔

ان باتوں کے لکھنے کا خیال کلکتہ کے روزنامہ اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں شائع ایک کالم کو پڑھ کر آیا۔ یہ کالم نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کی ایک پی ایچ ڈی اسکالر خدیجہ امینڈا نے لکھا ہے۔ جی چاہتا ہے کہ اس خوبصورت کالم کی کچھ باتیں قارئین کے سامنے پیش کی جائیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ امریکی اخبار ’دی نیویارک ٹائمز‘ کے نمائندہ سیول زیمانڈ نے 1924 میں اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’بھارت میں گائے اور میوزک خلل ڈالتے ہیں‘۔ حالانکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت یہ دونوں باتیں اتنی خلل انداز نہیں ہوتی ہوں گی جتنی کہ آج ہوتی ہیں۔ بلکہ آج تو ان کی وجہ سے انسانی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ لوگوں کے مکانات مسمار کیے جا رہے ہیں۔ متاثرین نقل مکانی پر مجبور ہوتے ہیں۔ گائے کے تحفظ کے نام پر دوسروں کی جانیں لینا بہت آسان ہو گیا ہے۔

خدیجہ کہتی ہیں کہ ایک صدی قبل کے آرکائیو میں موجود اس فقرے کو دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔ یہ فقرہ تو آج بھی مضمون کی ہیڈنگ کے طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔ اس خبر کے شائع ہونے کے سو سال بعد بھی ہمارے ملک کے سیکولر کردار پر حملوں اور تشدد کا سلسلہ جاری ہے۔ آج ہندوستان کا ہر شہر تیز آواز میں گانے (ڈی جے)، شور شرابہ اور بے ہنگم آوازوں سے بھرا ہوا ہے۔ کاروں کے ہارن ہوں یا گلیوں میں اور سڑکوں پر اپنا سامان بیچنے کے لیے آواز لگانے والے ہوں، یہ سب معمول کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔ بی جے پی کے عروج کے بعد ایک نئی قسم کی ’ہندوتو پاپ میوزک یا ایچ میوزک‘ نے سماج میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ایسے پاپ گانے بیشتر ہندی میں ہوتے ہیں اور ان کا مقصد ہندوتو نواز عناصر کو متحد کرنا ہوتا ہے۔

پہلے یہ غیر معیاری گانے جو کہ غیر معیاری ساونڈ سسٹم سے مزین ہوتے ہیں، سیاسی ریلیوں کا حصہ تھے۔ بعد میں وہ ہندو تہواروں کا حصہ بن گئے۔ ایک انعام یافتہ آزاد صحافی کنال پروہت نے اس سلسلے میں ایک کتاب تصنیف کی ہے جس میں انھوں نے ہندوتو پاپ گانوں کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایسے متعصب گانے آج ہماری زندگی کا لازمی حصہ بن گئے۔ ان گانوں میں نفرت انگیز نعروں کو بھی بھر دیا گیا ہے۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ میں نے ہندوتو نواز عناصر کی جانب سے کیے جانے والے اس امتیازی رویے اور تشدد کو دو زمروں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک قانونی راستہ اختیار کرکے جیسے کہ شہریت کا ترمیم قانون سی اے اے۔ دوسرا بظاہر غیر رسمی طریقے سے یعنی ہندوتو پاپ گانے بجا کر۔


اشتعال انگریز تیز گانے آسانی سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا کر دیتے ہیں۔ میں نے اپنے ایچ ڈی ورک کے دوران حیدرآباد میں دیکھا کہ یہ گانے عام طور پر اذان کے وقت بہت تیز بجائے جاتے ہیں۔ مسلم علاقوں اور کسی مذہبی مقام کے سامنے سے گزرتے وقت ان کی آواز کو خوب تیز کر دینا عام بات ہے۔ ایسے مواقع پر تیز آواز میں گانے بجانا آسانی کے ساتھ اکثریت اور اقلیت کے درمیان کشیدگی پیدا کرتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میں اپنے پی ایچ ڈی کے دوران حیدرآباد میں عید میلاد النبی کے موقع پر موجود تھی۔ گزشتہ سال یعنی 2023 میں عید میلاد النبی گنیش وسرجن کے دن پڑی تھی۔ ممکنہ جھگڑے سے بچنے کے لیے عید میلاد النبی کے جلوس کو اگلے اتوار تک موخر کر دیا گیا۔

میں نے پہلے بھی یعنی کرونا سے قبل عید میلاد النبی کے جلوس میں شرکت کی ہے۔ ان جلوسوں میں نعت اور تکبیرات کو اہم مقام حاصل ہے۔ میں نے 2023 میں دیکھا کہ آٹو رکشاوں پر لاوڈ اسپیکر فٹ کرکے مکس مذہبی گانے بجائے جاتے تھے۔ میں نے جن لوگوں کے انٹرویو کیے ان میں سے بیشتر نے اس تیز میوزک کی مخالفت کی۔ تاہم ان جلوسوں کے بعض شرکا بالخصوص نوجوانوں کے لیے میلاد النبی کا دن شور مچانے والا دن مانا گیا۔ یہ میوزم سسٹم اپنی مذہبی شناخت کو ظاہر کرنے کا ایک ذریعہ بن گیا ہے۔ اس کا مشاہدہ آج بھی ہندوستان کے بیشتر شہروں میں کیا جا سکتا ہے۔

ہندوستان جیسے ملک میں جہاں شور کو کنٹرول کرنے کا کوئی معقول نظام نہیں ہے، آزادی کے ساتھ شور مچایا جاتا ہے۔ خاموشی یا عدم شور پرامن ہائی سوسائٹیز کا حصہ بن گیا ہے جہاں شرفاء رہائش پذیر ہوں۔ ان علاقوں کے باشندے خود کو ان پرشور آوازوں سے محفوظ بنانے میں کامیاب ہیں اور وہ نفرت انگیز نعروں اور گانوں سے اتنے واقف نہیں ہیں جتنے کہ دوسرے علاقوں کے لوگ۔ وہ اس سوال پر اپنا کالم ختم کرتی ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ غیر متعصب انداز میں اس نفرت انگیزی پر قابو پایا جا سکے یا یہ نفرت انگیز گانے اس نفرت کی عکاسی کرتے ہیں جو ہمارے ملک میں سرایت کر گئی ہے؟

خدیجہ امینڈا نے ایک بہت اہم معاملے پر قلم اٹھایا ہے۔ ممکن ہے کہ انھوں نے اپنے کالم میں مزید واقعات درج کیے ہوں جو کالم کی محدود جگہ کی نذر ہو گئے ہوں۔ ان کی نظروں کے سامنے اس نفرت انگیزی کے دیگر مظاہر بھی ہوں گے۔ وہ اس سے بھی واقف ہوں گی کہ کس طرح ہندوتو نواز عناصر کی جانب سے مسجدوں کے سامنے ہنگامہ کیا جاتا ہے، (حالانکہ انھوں نے اس جانب اشارہ کیا ہے) اور کس طرح اس کی مخالفت کرنے کی سزا مسلمانوں کو دی جاتی ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال اترپردیش کے بہرائچ کے مہراج گنج قصبے میں دیکھنے کو ملی ہے۔ جہاں مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ کارروائی کی جا رہی ہے۔


کالم کے آغاز میں انھوں نے نیویارک ٹائمز کے نمائندے کا جو فقرہ درج کیا ہے اس میں گائے کا بھی ذکر ہے۔ لیکن خدیجہ کا کالم صرف نفرت انگیز نعروں اور گانوں تک محدود ہے۔ بلا شبہ وہ گو رکشا کے نام پر مسلمانوں کی لنچنگ سے بھی واقف ہوں گی اور ممکن ہے کہ انھوں نے اس پر بھی کالم لکھے ہوں جن پر ہماری نظر نہیں گئی۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اگلا کالم لنچنگ پر لکھیں۔ دو ماہ قبل ہریانہ میں روہتک کے نزدیک ایک بنگالی نوجوان صابر ملک کو اس شبہے میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا کہ اس نے بیف کھایا ہے۔ اس کے گھر سے گوشت کا نمونہ لیا گیا۔ اب یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہ گوشت بیف نہیں تھا۔

جب صابر ملک پر الزام لگایا گیا تھا تو اس کی رہائش کے مقام پر جہاں بنگالی مسلمانوں نے جھگیاں بنا رکھی تھیں، نام نہاد گورکشکوں نے جا کر لوگوں کو ہراساں کیا تھا جس کے بعد ان لوگوں نے کہا تھا کہ وہ وہاں سے واپس بنگال چلے جائیں گے۔ اب جبکہ یہ صاف ہو چکا ہے کہ مذکورہ گوشت بیف نہیں تھا تو کیا صابر ملک کی زندگی واپس آسکتی ہے۔ اس کے اہل خانہ جن سخت حالات سے دوچار ہیں کیا ان کی کوئی مدد کی جائے گی اور کیا صابر ملک کو مارنے والے غنڈوں کو بھی پھانسی دی جائے گی۔

جب سب سے پہلے اترپردیش کے دادری میں اخلاق نامی شخص کو بیف کے نام پر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا تو اس معاملے میں بھی یہ ثابت ہوا تھا کہ ان کے فریج میں جو گوشت تھا وہ بیف نہیں تھا۔ لیکن کیا یہ کسی نے سنا کہ ان کے حملہ آوروں کو پھانسی دی گئی یا وہ کہاں ہیں، جیل میں ہیں یا آزاد گھوم رہے ہیں۔

یہ نفرت انگیزی ہندوستان کی سماجی ہم آہنگی کو تو ختم کر ہی رہی ہے، وہ وقت دور نہیں جب بحیثیت معاشرہ ہندوستان بالکل ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائے گا۔ کیا اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے ان جرائم کی حوصلہ افزائی کرنے والے نام نہاد قائدین ہوش کے ناخن لیں گے اور یہ سلسلہ بند کرائیں گے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔