’رافیل معاہدہ میں اعلیٰ سطح پر بدعنوانی، دسالٹ سی ای او اس کا دفاع نہ کریں‘
صرف دو ہی لوگوں کو اس معاہدہ کی پوری سچائی کا علم ہے۔ فرانس کے سابق صدر اولاند اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی۔ اولاند بول چکے ہیں جب کہ نریندر مودی خاموش ہیں۔
آج رافیل سے شروعات کرتے ہیں۔ جس طریقے سے رافیل معاہدہ کیا گیا تھا، اس سے متعلق میرے ذہن میں کافی اندیشہ تھا اور کم و بیش مجھے یقین ہو چلا تھا کہ اس پورے معاہدہ میں بدعنوانی پر مبنی مقاصد رہے ہیں۔ اب یکم نومبر 2018 کو دسالٹ کے سی ای او ایرک ٹریپیر کا ایک انٹرویو آیا ہے جس میں انھوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ انھیں اس حکومت سے حکومت کے معاہدے کے بارے میں پہلی بار اس وقت پتہ چلا جب 10 اپریل 2015 کو نریندر مودی نے فرانس کے اس وقت کے صدر فرانسوا اولاند سے پیرس میں ملنے کے بعد پریس کانفرنس کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دسالٹ یہ نہیں جانتا تھا کہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کے ساتھ ہوا معاہدہ 95 فیصد مکمل ہو چکا تھا، ٹریپیر نہیں جانتے تھے کہ ایچ اے ایل کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہے، کیونکہ اس دن 10 اپریل کو ٹریپیر کو یہ پتہ نہیں تھا کہ ایچ اے ایل کو معاہدہ سے باہر کر دیا گیا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ 25 مارچ 2015 کو ٹریپیر نے ہی یہ اعلان کیا تھا (جہاں ہمارے سفیر موجود تھے) کہ ایچ اے ایل کے ساتھ ہوئے معاہدہ میں سب کچھ بہت اچھا ہے اور 95 فیصد چیزوں کو ہری جھنڈی دے دی گئی ہے اور جب وزیر اعظم آئیں گے تو 5 فیصد بچی چیزوں کو بھی ہری جھنڈی دے دی جائے گی۔ اور معاہدہ پر دستخط ہو جائیں گے اور مہر لگ جائے گی۔
مجھے لگتا ہے کہ اس وقت میں نے پریس میں یہ بولا تھا کہ وزیر اعظم کے آنے کے کم از کم دو ہفتہ پہلے دسالٹ کو یہ پتہ ہونا چاہیے تھا کہ ایچ اے ایل کے ساتھ ہوا معاہدہ ختم ہو گیا ہے۔
دوسری بات اور بھی زیادہ حیران کرنے والی ہے۔ وہ یہ ہے کہ 25 مارچ 2015 کو ریلائنس کی ایک کمپنی کو بنایا گیا تھا اور دسالٹ کو یہ بات معلوم نہیں تھی۔ اس لیے یہ بات صاف ہے کہ ریلائنس جانتا تھا کہ ایک معاہدہ ہے جس میں ریلائنس آفسیٹ پارٹنر بننے جا رہا ہے۔ نہیں تو وہ کیوں 25 مارچ کو ایک کمپنی بناتا؟ اور 23 اپریل 2015 کو ایک اور کمپنی بنا لی گئی جو کہ جوائنٹ کمپنی معاہدہ تھا۔ اس لیے یہ بات صاف ہے کہ 25 مارچ کو جب ریلائنس کے ذریعہ ایک کمپنی بنائی گئی، اس وقت وہ جانتا تھا کہ 10 اپریل کو وزیر اعظم جا رہے ہیں اور وہ معاہدہ کا اعلان کریں گے اور 23 اپریل 2015 کو ایک جوائنٹ کمپنی معاہدہ ہوگا۔
اب میں آپ کے ذریعہ دسالٹ کو یہ متنبہ کروں گا کہ وہ جتنا معاہدہ کو لے کر چیزوں کو چھپانا جاری رکھیں گے، اتنا ہی انھیں آنے والے دنوں میں مشکلات پیش آئیں گی۔ ہندوستان میں آفسیٹ قوانین کے تحت دسالٹ ایک ایسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ نہیں کر سکتی تھی جس کے پاس دفاعی شعبہ میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ ریلائنس کے پاس دفاعی مشینوں کو بنانے کا لائسنس نہیں تھا۔ اور جیسا کہ آپ تاریخ جانتے ہیں (یہ ایسا کچھ نہیں ہے جسے میں ظاہر کر رہا ہوں، یہ ایک سچائی ہے) کہ جولائی 2018 میں اسے لائسنس ملا ہے۔ لیکن یہ آفسیٹ قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ اور دسالٹ کو یہ پتہ ہونا چاہیے تھا۔
ایرک ٹریپیر نے معاہدہ کے بارے میں تفصیلی جانکاری نہیں ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی ہے کہ یہ حکومت سے حکومت کے درمیان ہوا معاہدہ تھا۔ لیکن ٹریپیر نے کہا کہ ایک چیز وہ جانتے تھے کہ 36 رافیل طیارہ خریدے گئے اور ہر طیارہ کی قیمت حکومت ہند کے ذریعہ پہلے کیے گئے معاہدہ سے 9 فیصد کم تھی۔ یاد رکھیے کہ 126 رافیل طیاروں میں سے 18 تیار ملنے تھے۔ 36 رافیل طیاروں کی قیمت 18 تیار طیاروں سے 9 فیصد کم تھی۔ لیکن ٹریپیر ہمیں یہ نہیں بتاتے ہیں کہ اگر آپ 126 طیارہ خریدیں گے تو اس کی قیمت بہت کم ہوگی۔ کیونکہ خریدے جا رہے 18 تیار طیاروں کے علاوہ بچے ہوئے 108 طیاروں کو ہندوستان میں بنایا جانا تھا۔ اور تکنیک کو تیار کرنے کی لاگت اور باقی بچے ہوئے دسالٹ کے خرچ کو حکومت ہند کے ذریعہ کئی سالوں کے دوران اٹھایا جانا تھا، اگر 126 طیارہ خریدے جاتے تو قیمت کافی کم ہوتی، بہت کم۔
جب آپ 18 طیارہ خریدتے ہیں تو آپ بہت کم تعداد میں تیار طیارہ خریدتے ہیں۔ 36 طیارہ بڑی تعداد ہوتی ہے۔ اس لیے فی طیارہ قیمت کم ہونی تھی۔ لیکن ایچ اے ایل کے ساتھ ہوا معاہدہ 126 طیاروں کے لیے تھا۔ اگر وہ معاہدہ پورا ہو گیا ہوتا تو قیمت بہت کم ہوتی۔ تو پورے نئے معاہدہ کو لے کر اٹھ رہے ایشوز کو بھٹکانے کے لیے حکومت ہند اور دسالٹ ایسا کر رہی ہے۔
ایرک ٹریپیر نے یکم نومبر کے انٹرویو میں ایک بات اور کہی۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے ریلائنس کے ساتھ یہ معاہدہ اس لیے کیا کیونکہ اس کے پاس ناگپور میں جو پروڈکشن سہولت ہے، وہ ائیر فیلڈ کے پاس ہے۔ اور وہ بہت ضروری تھا جو ایچ اے ایل کے پاس نہیں تھا۔ یہ بیان پوری طرح غلط ہے کیونکہ اگست 2018 میں زمین کی قیمت ادا کی گئی تھی جس سے یہ پروڈکشن کی سہولت ملی تھی۔ جب جوائنٹ کمپنی معاہدہ ہوا تھا، اس وقت یہ سہولت نہیں تھی۔ بیان کا دوسرا حصہ بھی غلط ہے کیونکہ ایچ اے ایل کے پاس بنگلورو میں زمین تھی اور حقیقت میں رافیل کو بنانے کے لیے وہ بڑی مشینری لگانے والے تھے۔ انھوں نے اس کے لیے درخواست بھی دے دی تھی۔ ٹریپیر نے اس بات کو ظاہر نہیں کیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ دسالٹ سچائی کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بدقسمتی سے وہ اپنے ہی جال میں پھنس گئے ہیں۔
اب سابق فرانسیسی صدر اولاند کے بیان کو یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے جو کہا تھا وہ فطری طور پر درست ہے۔ حالانکہ وہ بہت زیادہ نہیں بول رہے اور اس کی وجہ میرے خیال سے یہ ہے کہ فرانسیسی حکومت نے کہا ہوگا کہ آپ جتنا زیادہ بولیں گے معاہدہ کے لیے اتنا ہی برا ہوگا۔ صرف دو ہی لوگوں کو اس معاہدہ کی پوری سچائی پتہ ہے، اور وہ ہیں سابق فرانسیسی صدر اولاند اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی۔ اولاند بول چکے ہیں جب کہ نریندر مودی خاموش ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی اس لیے کچھ نہیں بول سکتے کیونکہ اگر وہ کچھ ایسا بولتے ہیں جو اولاند سے الگ ہے تو ایک بحران پیدا ہو جائے گا۔ اور وہ شاید اولاند سے متفق بھی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے فطری طور پر وہ خاموش ہیں۔ اور اگر آپ اپنے ایروناٹکس صنعت، جنگی طیاریوں اور درمیانی دوری کے جنگی طیاروں میں جدت پیدا کرنا چاہتے ہیں تو 126 کیوں نہیں خریدے، 36 ہی کیوں خریدے؟
ایچ اے ایل کے چیئرمین نے سبکدوش ہونے کے پہلے اور بعد میں بھی یہ کہا کہ معاہدہ ہو چکا تھا، میں نہیں چاہتا کہ اسے ختم کر دیا جائے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہم کافی اہل تھے جب کہ حکومت ہند نے کہا کہ ہم رافیل طیاروں کے پروڈکشن کے لیے اہل نہیں تھے۔ درحقیقت آپ جانتے ہیں کہ اپریل 2015 میں ہی دو یا تین میراج طیاروں کو، جن کو جدید بنایا گیا تھا، مہیا کرایا جا رہا تھا۔ تو ایچ اے ایل کے چیئرمین نے خود ہی کہا کہ ہم پروڈکشن کے لیے اہل تھے، ہم پہلے بھی کر چکے ہیں، ہم سکھوئی کا اور روس سے لیے گئے کئی جنگی طیاروں کا پروڈکشن کر چکے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ لیکن یقینی طور پر وزیر اعظم کا ارادہ کچھ اور تھا۔
صرف تکنیک محفوظ ہے۔ تکنیک کے بارے میں کون جاننا چاہتا ہے؟ ہم قیمت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ تو آپ ہم سے قیمت کیوں چھپا رہے ہیں؟ آپ مشینوں کی قیمت ہمیں بتا سکتے ہیں۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ یہ الگ ہے تو ہمیں یہ بتائیں کہ 18 تیار طیاروں میں مشینوں کے معاملے میں کیا تھا اور کیا بہتر مشین 36 تیار طیاروں میں ہونی ہیں۔ اس میں کوئی خفیہ بات نہیں ہے۔ اور اسے اتنا محفوظ رکھا گیا ہے؟ وہ ہمیں قیمت نہیں بتا رہے ہیں۔ نہ تو دسالٹ اور نہ ہی حکومت ہند ہمیں قیمت بتا رہی ہے۔ اور ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ 36 پر کیوں رک گئے اور آپ نے ایچ اے ایل کا معاہدہ کیوں ختم کر دیا اور اس کے پیچھے ارادہ کیا تھا، اور آپ نے ایک ایسی کمپنی کو معاہدہ کیوں دے دیا جس کے پاس دفاعی سیکٹر میں کوئی تجربہ نہیں ہے۔ اور آپ ایک ایسی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ کمپنی معاہدہ میں کیوں گئے جس کے پاس پروڈکشن کا لائسنس بھی نہیں تھا۔ اور آپ نے ایسی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کیوں کیا جس کے پاس زمین بھی نہیں تھی۔
آپ نے ایک وجہ دی کہ ان کے پاس زمین تھی، ایچ اے ایل کے پاس نہیں تھی۔ اگر دسالٹ یہ نہیں جانتا تھا کہ ریلائنس نیا آفسیٹ پارٹنر ہے تو ایرک ٹریپیر اس معاہدہ کا بچاؤ کرنے کے لیے اتنے اسباب کیوں شمار کرا رہے ہیں؟ مودی کی اولاند سے ہوئی میٹنگ کے بعد ہوئے پریس کانفرنس تک دسالٹ اس کے بارے میں نہیں جانتا تھا، تو پھر وہ معاہدہ کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ انھیں کیوں ایسا بیان دینے کے لیے کہا جا رہا ہے؟ یہ بہت سنگین ایشو ہے۔ اور اس لیے ہم ایک جانچ چاہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں اعلیٰ سطح پر بدعنوانی موجود ہے اور میں دسالٹ کے سی ای او سے یہ کہوں گا کہ پانی کو مزید زیادہ گندہ نہ کریں۔ کیونکہ یاد رکھیے، آپ چاہے جتنے بھی بڑے ہوں، قانون آپ سے بڑا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 13 Nov 2018, 5:09 PM