مودی حکومت کی مہربانی سے گھروں میں ’رامائن‘ اور سڑکوں پر روٹی کے لیے ’مہابھارت‘

لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے حکومت کو اپنے گاؤں سے باہر مزدوری کرنے والوں کو گھر لوٹنے کے لیے کم از کم تین دن کی مہلت دینی چاہیےتھی۔ جلدبازی میں لیے گئے فیصلے سے لاک ڈاؤن کا کوئی مطلب ہی نہیں رہا۔

تصویر ویپن
تصویر ویپن
user

قومی آواز بیورو

عالمی وبا کی شکل اختیار کر چکے کورونا وائرس کے انفیکشن کو روکنے کے لیے پورا ہندوستان لاک ڈاؤن ہے۔ اس درمیان گھروں میں نظربند لوگوں کی تفریح کے لیے مرکز کی مودی حکومت نے سرکاری چینل دوردرشن پر مشہور مذہبی سیریل 'رامائن' اور 'مہابھارت' کا نشریہ دوبارہ شروع کر دیا ہے اور حکومت اس کا خوب ڈھنڈورا بھی پیٹ رہی ہے۔ لیکن یہ سب خبروں اور تصویروں میں سننے دیکھنے میں تو کافی اچھا لگتا ہے، لیکن زمین پر سچائی کوئی الگ ہی چہرہ دکھا رہی ہے۔

دراصل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ملک بھر کے میٹرو پولیٹن شہروں میں روزی روٹی اور تمام روزگار کے وسائل بند ہونے کے بعد ہزاروں ہزار کی تعداد میں مزدوروں کو بھوکے پیاسے پیدل ہی سینکڑوں کلو میٹر دور اپنے گاؤں کی طرف لوٹنا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے سڑک پر کسی طرح ایک وقت کی 'روٹی' حاصل کرنا مہابھارت بنتا جا رہا ہے۔


گزشتہ 6 دنوں میں ملک کی سڑکوں سے کئی ایسی تصویریں سامنے آئی ہیں جو کسی کے بھی دل کو دہلا دیتی ہیں۔ کورونا وائرس کے بڑھتے انفیکشن کو روکنے کے لیے 25 مارچ سے پورا ملک لاک ڈاؤن ہے، لہٰذا میٹرو پولیٹن شہروں کے سبھی سرکاری، غیر سرکاری دفاتر کے ساتھ ہی تمام کمپنیاں اور فیکٹریاں بند ہو گئیں اور ان میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور بے کار ہو گئے۔ لاک ڈاؤن میں گاڑیوں کے بند ہونے کی وجہ سے کوئی ایک ہزار تو کوئی پانچ سو کلو میٹر کا سفر کر پیدل اپنے گھر لوٹ رہا ہے۔

ایسے افرا تفری کے ماحول میں ان میٹرو پولیٹن شہروں سے زیادہ لوگ لوٹ رہے ہیں جہاں انفیکشن کے مریض زیادہ پائے جا رہے ہیں۔ اس درمیان سڑکوں پر میلہ لگا ہوا ہے اور لوگ بھوک سے بے حال ہوئے جا رہے ہیں۔ لاک ڈاؤن پر عمل کرانے کی ذمہ داری سنبھال رہے پولس اہلکار کہیں لاٹھی برسا رہے ہیں تو کہیں انسانوں کو مینڈک جیسے رینگنے کے لیے مجبور کر رہے ہیں۔ سب سے زیادہ خوفناک تصویر بریلی سے آئی ہے جہاں سرکاری ملازم خواتین اور بچوں کے اوپر کیمیکل چھڑکاؤ کر سینیٹائز کرتے دیکھے گئے ہیں۔


ان سبھی پہلوؤں کے درمیان مرکزی حکومت کے محکمہ اطلاعات و نشریات نے چھوٹے پردے یعنی ٹی وی پر مذہبی سیریل 'رامائن' اور 'مہابھارت' کا دوبارہ نشریہ شروع کر دیا ہے تاکہ اپنے گھروں میں نظربند لوگ آرام سے تفریح کر سکیں۔ لیکن شاید ہی حکومت کو پتہ رہا ہو کہ جس وقت کچھ لوگ اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر رامائن سیریل دیکھ رہے ہوتے ہیں، ٹھیک اسی وقت سماج کا ایک بڑا طبقہ (مزدور طبقہ) سڑکوں پر بھوک اور ذلالت کا مہابھارت دیکھ رہا ہوتا ہے۔

اگر ملک کے پسماندہ علاقہ بندیل کھنڈ کی بات کی جائے تو یہاں کے تقریباً 10 سے 15 لاکھ مزدور میٹرو پولیٹن شہروں میں رہ کر اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں، جن کی اب گھر واپسی ہو رہی ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار پر بھروسہ کریں تو گزشتہ چار دنوں میں تقریباً ایک لاکھ سے زیادہ مزدوروں کی واپسی ہو چکی ہے اور ان میں سے بہت کم ہی لوگوں کی تھرمل اسکریننگ ہوئی ہے۔ اس درمیان باندا کے ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹ سنتوش بہادر سنگھ نے حکم دیا ہے کہ "گاؤں میں بڑی تعداد میں باہر سے لوگ آئے ہیں، ان کی گاؤں کے نام کے ساتھ فہرست تیار کی جائے اور انھیں اسکولوں اور آنگن واڑی مراکز میں کوارنٹائن کیا جائے۔"


اس خط سے ظاہر ہے کہ روزی روٹی کی تلاش میں دوسری ریاستوں میں گئے دہاڑی مزدور اگر سینکڑوں و ہزاروں کلو میٹر کا سفر پیدل کر کسی طرح اپنے گھر پہنچ بھی جا رہے ہیں تو نہ تو وہاں ان کی جانچ ہو رہی ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ اچھا سلوک ہو رہا ہے۔ باندا کے بزرگ وکیل رنویر سنگھ چوہان کہتے ہیں کہ "لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے حکومت کو کم از کم تین دن کی مہلت ان لوگوں کی گھر واپسی کے لیے دینا چاہیے تھا جو پردیس میں مزدوری کر رہے تھے۔ جلدبازی میں لیے گئے فیصلے سے لاک ڈاؤن کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔" بقول چوہان "گھروں میں 'رامائن' ہو رہی ہے اور مزدور طبقہ سڑک پر روٹی کا 'مہابھارت' دیکھ رہا ہے۔ اوپر سے انھیں پولس کی لاٹھیاں سود میں مل رہی ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔