کورونا بحران: ملک میں بھکمری مگر ہندوستانیوں کی سوئس بینک میں جمع رقومات میں اضافہ
کورونا والے سال 2020 میں سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں ہندوستانی شہریوں اور فرموں کی جانب سے جمع رقومات میں تین گنا سے اضافہ ہوا ہے، وہیں دوسری طرف عالمی غریبی میں ہندوستان کی حصہ داری 57 فیصد سے زیادہ ہے
نئی دہلی: ملک میں امیری اور غریبی کا فرق کس قدر عروج پر ہے اس کا اندازہ اس بات سے لاگایا جا سکتا ہے کہ کورونا بحران کے دوران ملک میں بھکمری مزید بڑھ گئی جبکہ ہندوستان کے امرا کی سوئس (سوئٹزرلینڈ کے) بینکوں میں جمعہ رقومات میں اضافہ ہو گیا۔ آج تک پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کورونا والے سال 2020 میں سوئٹزرلینڈ کے مختلف بینکوں میں ہندوستانی شہریوں اور فرموں کی جانب سے جمع رقومات میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
کورونا وبا کی شروعات والے سال 2020 میں سوئٹزر لینڈ کے مختلف بینکوں میں ہندوستانی شہریوں اور فرموں کی رقم بڑھ کر 2.55 ارب سوئس فرینک (تقریباً 20700 کروڑ روپے) پہنچ گئی ہے، جو گزشتہ 13 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔سال 2019 میں سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی جمع رقم 6625 کروڑ روپے تھی، یعنی ایک سال میں ہی اس میں تین گنا سے زیادہ کا اضافہ ہو گیا ہے!
پی ٹی آئی کے مطابق ان اعدادوشمار میں ان ہندوستانی یا غیر مقیم ہندوستانیوں کی جمع کی گئی رقم شامل نہیں ہے جو کسی تیسرے ملک کی تنظیم یا کمپنی کی جانب سے جمع کرائی گئی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ کالا دھن ہو، کیونکہ کالے دھن کی اطلاع سوئٹزر لینڈ کی حکومت علیحدہ سے فراہم کرتی ہے۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے ہندوستانیوں کی سال 2006 میں سب سے زیادہ 6.5 ارب فرینک کی رقم سوئس بینکوں میں جمع ہوئی تھی لیکن اس کے بعد سے اس میں ہر سال گراوٹ درج کی گئی ہے۔
سوئس بینکوں میں ہندوستانیوں کی رقومات میں یہ اضافہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب ہندوستان غریبی اور بھکمری کے حالات سے نبردآزما ہے۔ گزشتہ روز کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے ایک رپورٹ مشترک کر کے کہا تھا کہ جو لوگ وبا کے دوران خط افلاس سے نیچے چلے گئے ہیں اور یومیہ 2 امریکی ڈالر بھی نہیں کما پا رہے ہیں ان میں ہندوستان کی حصہ داری سب سے زیادہ ہے۔المناک بات یہ ہے کہ عالمی غریبی میں ہندوستان کی حصہ داری 57.3 فیصد ہے۔
ادھر، عالمی بھکمری کے انڈیکس میں بھی ہندوستان 107 ممالک میں 74ویں مقام پر ہے۔ وبا اور بیروزگاری کی وجہ سے ملک کی حالت خستہ ہو چکی ہے اور تقریباً 16 ریاستوں میں بچوں کا وزن معمول سے کافی کم ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔