صحافیوں پر حملہ اور تشدد... 200 سے زائد معاملوں پر رپورٹ جاری
دو روزہ قومی سمیلن میں شامل مقررین نے اس بات کو بہت درد کے ساتھ رکھا کہ جب صحافیوں پر حملہ ہوتا ہے تو تمام میڈیا گھرانے اسے انصاف دلانے، انصاف کی لڑائی میں آگے بڑھنے کی جگہ اس سے کنارہ کر لیتے ہیں۔
ملک میں صحافیوں پر ہو رہے حملوں کے خلاف راجدھانی دہلی کے کانسٹی ٹیوشن کلب میں ہفتہ کے روز دو روزہ قومی سمیلن کا آغاز ہوا۔ اس تقریب کے پہلے دن صحافیوں کے ساتھ تشدد اور ان پر حملوں کے 200 سے زائد معاملوں پر ایک رپورٹ پیش کی گئی۔ اس تقریب کے افتتاحی سیشن میں حصہ لیتے ہوئے فلم اداکار اور احتجاج کی طاقتور آواز پرکاش راج نے کہا کہ ’’میں صحافی نہیں ہوں، لیکن میں نے حملوں کو دیکھا ہے۔ میڈیا کو کس طرح خریدا جا رہا ہے، یہ دیکھ رہا ہوں۔ لیکن مجھے اس بات کا یقین ہے کہ بہت سے صحافی جوکھم لے کر آج کام کر رہے ہیں، یہ بہت مثبت عمل ہے۔‘‘
’کمیٹی اگینسٹ اسالٹ آن جرنلسٹ‘ کے بینر کے تحت اس دو روزہ تقریب میں ملک بھر سے ایسے کئی صحافی شرکت کر رہے ہیں جن پر حملے ہوئے ہیں یا جنھیں جھوٹے مقدموں میں پھنسا گیا یا پھر جنھیں ٹرول کیا جا رہا ہے۔ ’دیش بندھو‘ اخبار کے مالک للت سُرجن نے اس موقع پر کہا کہ آج کا دور گورِلّا صحافت کرنے کا ہے۔ ہر جگہ سے ہمیں سچی اور صحیح رپورٹنگ کرنی ہوگی، نہیں تو جمہوریت کو نہیں بچایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’ہمیں نئے نئے تجربات کرنے چاہئیں تاکہ سچ کو لوگوں تک پہنچایا جا سکے۔ انھوں نے کہا کہ آج ہمارے لیے سچے ہیرو امیتابھ بچن نہیں بلکہ پرکاش راج ہیں۔ انہی کی طرح بننے کی کوشش ہونی چاہیے۔‘‘
اس تقریب میں شامل ہونے کے لیے تشدد اور حملوں میں مارے گئے کئی صحافیوں کے رشتہ دار بھی آئے ہیں۔ بہار کے سیوان میں مارے گئے صحافی راجدیو راجن کی بیوی آشا راجن بھی آئی ہیں اور انصاف کی لڑائی کے ساتھ ساتھ خود پر منڈلاتے خطرات پر اپنے تجربات ظاہر کریں گی۔ اسی طرح جموں و کشمیر کے سری نگر میں مارے گئے سینئر صحافی شجاعت بخاری کے بارے میں اور وہاں کے مشکل حالات کے بارے میں صحافی جلیل راٹھور اپنی بات رکھیں گے۔ اس تقریب کے ذریعہ پہلی بار قومی سطح پر صحافیوں کی حالت، ان پر ہو رہے حملوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض ہوا اور ملک بھر میں بنائے جا رہے خوف کے ماحول کو چیلنج پیش کیا گیا۔ تمام مقررین نے اس بات کو بہت درد کے ساتھ رکھا کہ جب صحافیوں پر حملہ ہوتا ہے تو تمام میڈیا گھرانے اسے انصاف دلانے، انصاف کی لڑائی میں آگے بڑھنے کی جگہ اس سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ان کی لڑائی میں زیادہ تر جرنلسٹ یونین بھی ساتھ نہیں دیتے۔
تقریب میں شامل مقررین نے کہا کہ خاص طور سے جس طرح سے موجودہ حکومت میں صحافیوں کو خبریں کرنے کی سزا کے طور پر جھوٹے مقدموں میں پھنسایا جا رہا ہے وہ صحافیوں کو ڈرانے اور ان میں خوف پیدا کر ان کی قلم کو قید کرنے کی کوشش ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔