چیف انفارمیشن کمشنر کی تقرری پر تنازعہ شروع، ادھیر رنجن نے صدر دروپدی مرمو کو لکھا خط

ادھیر رنجن نے اپنے خط میں لکھا ہے ’’انتہائی افسوس اور بھاری من سے میں آپ کی جانکاری میں لانا چاہتا ہوں کہ سی آئی سی اور آئی سی کی تقرری معاملے میں سبھی جمہوری پیمانوں کو طاق پر رکھ دیا گیا ہے۔‘‘

 ادھیر رنجن چودھری، تصویر یو این آئی
ادھیر رنجن چودھری، تصویر یو این آئی
user

قومی آواز بیورو

ہیرالال سامریا نے سنٹرل انفارمیشن کمیشن کے چیف یعنی سنٹرل انفارمیشن کمشنر (سی آئی سی) کے طور پر 6 نومبر کو حلف برداری کی۔ اب اس تقرری معاملے پر تنازعہ شروع ہو گیا ہے۔ وزیر اعظم کی صدارت والی اعلیٰ اختیار یافتہ سلیکشن کمیٹی میں اپوزیشن کے رکن اور کانگریس رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے صدر جمہوریہ کو ایک خط لکھ کر الزام عائد کیا ہے کہ سی آئی سی کی تقرری سے متعلق انھیں پوری طرح سے تاریکی میں رکھا گیا۔

کانگریس رکن پارلیمنٹ ادھیر رنجن چودھری نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’انتہائی افسوس اور بھاری من سے میں آپ کی جانکاری میں لانا چاہتا ہوں کہ سنٹرل انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنرز کے انتخاب معاملہ میں سبھی جمہوری پیمانوِ رسوم و رواج اور طریقہ کار کو طاق پر رکھ دیا گیا۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت نے سلیکشن کے بارے میں نہ تو ان سے مشورہ لیا اور نہ ہی انھیں کوئی جانکاری دی۔


ادھیر رنجن چودھری کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ انھیں ایک میٹنگ کے بارے میں بتایا گیا تھا، لیکن بعد میں تاریخ میں تبدیلی کر دی گئی تھی جس کے سبب انھیں اپنے سبھی کاموں کو پھر سے شیڈول کرنا پڑا۔ صرف یہ پتہ لگانے کے لیے کہ سی آئی سی کے نام کا اعلان کیا گیا ہے، اس کے لیے انھوں نے کولکاتا کا اپنا سفر ملتوی کر دیا، لیکن پھر بھی انھیں مطلع نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ اطلاعات کا حق ایکٹ 2005 کے مطابق چیف انفارمیشن کمشنر اور انفارمیشن کمشنرز کی تقرری صدر جمہوریہ کے ذریعہ بنائی گئی وزیر اعظم کی صدارت والی ایک کمیٹی کی سفارش پر کی جاتی ہے اور اس میں لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر (اس معاملے میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کا لیڈر) اور وزیر اعظم کے ذریعہ نامزد ایک مرکزی وزیر شامل ہوتے ہیں۔ ادھیر رنجن کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ ڈی او پی ٹی (ڈپارمنٹ آف پرسنل اینڈ ٹریننگ) کے افسران نے اکتوبر کے آخری ہفتہ میں ان کے دفتر سے رابطہ کر کمیٹی کی میٹنگ کے لیے ان کی موجودگی طلب کی تھی۔ ان کے دفتر نے انھیں مطلع کیا کہ وہ 2 نومبر تک دہلی میں موجود ہیں اور انھیں 3 نومبر کو قبل سے مقرر میٹنگ میں حصہ لینے کے لیے مغربی بنگال پہنچنا ہے۔ حالانکہ ادھیر رنجن کو ڈی او پی ٹی سے جو خط ملا اس میں مطلع کیا گیا کہ کمیٹی کی میٹنگ 6 نومبر کو شام 3 بجے ہونے والی ہے۔ پھر انھوں نے پرسونل، عوامی شکایت اور پنشن وزارت میں ریاستی وزیر جتیندر سنگھ کو خط لکھ کر میٹنگ کی نئی تاریخ مقرر کرنے کی گزارش کی۔


ادھیر رنجن کا کہنا ہے کہ ’’جہاں تک میٹنگ کے پروگرام کی بات ہے، میرا دفتر ڈی او پی ٹی سے متعلق افسران کے لگاتار رابطے میں تھا۔ یہ بہت واضح لفظوں میں بتایا گیا تھا کہ مغربی بنگال میں ایک قبل سے مقرر پروگرام میں حصہ لینے کے سبب میرے لیے میٹنگ میں حصہ لینا ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے یہ گزارش بھی کی گئی تھی کہ میٹنگ کو اس دن شام 6 بجے کی جگہ یکم یا 2 نومبر یا 3 نومبر کی صبح 9 بجے کے لیے مقرر کر لیں۔ حالانکہ مجھے بغیر اطلاع دیے سامریا کو سی آئی سی مقرر کر دیا گیا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔