مودی حکومت کی ’اُڑان نیتی‘ سے اُڑ جاتے ہیں گھوٹالے باز

کانگریس نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ مودی حکومت میں پی این بی گھوٹالہ 24 گھنٹے کے اندر دوگنا ہو چکا ہے اور اس میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

وشو دیپک

پنجاب نیشنل بینک کا مہاگھوٹالہ صرف 11500 کروڑ کا نہیں ہے بلکہ ہر گھنٹے اس گھوٹالے کی رقم بڑھ رہی ہے اور جو صرف 24 گھنٹے میں ہی دوگنے سے زیادہ یعنی تقریباً 21306 کروڑ ہو چکا ہے۔ یہ الزام جمعہ کو کانگریس نے ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس پریس کانفرنس میں کانگریس نے کچھ دستاویزات اور اعداد و شمار پیش کیے جن سے پتہ چلتا ہے کہ پی این بی مہاگھوٹالے کی رقم کس تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹے میں یہ گھوٹالہ کافی بڑا ہو چکا ہے اور اس کے مزید بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ کانگریس نے کچھ ایسے اعداد و شمار بھی پیش کیے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح یہ گھوٹالہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ:

  • پنجاب نیشنل بینک نے 11400 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا اعتراف خود کیا ہے۔ اس میں اس نے 293 لیٹر آف انڈر اسٹینڈنگ یعنی ایل او یو پیش کیے ہیں۔
  • دوسرے تقریباً 30 بینک بھی اس طرح کے گھوٹالے کا شکار ہوئے ہیں۔ ان بینکوں نے فائر اسٹار انٹرنیشنل پرائیویٹ لمیٹڈ، فائر اسٹار ڈائمنڈ، گیتانجلی جیمس لمیٹڈ اور گیتانجلی ایکسپورٹس کارپوریشن کو 9906 کروڑ کا قرض دیا۔
  • اس طرح گھوٹالے کی کل رقم 21306 کروڑ روپے ہو گئی۔
  • گھوٹالہ سامنے آنے کے بعد دو دنوں میں پنجاب نیشنل بینک کے شیئر تقریباً 20 فیصد ٹوٹے، اس سے سرمایہ کاروں کو 7000 کروڑ کا نقصان ہوا۔
  • پنجاب نیشنل بینک میں مرکزی حکومت کی شراکت داری 57 فیصد ہے، بقیہ دوسرے مالی اداروں اور عام سرمایہ کاروں کی ہے۔
  • اس نقصان کو ملا کر مجموعی خسارہ 28306 کروڑ روپے کا ہے۔

کانگریس کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ بینکوں کے پیسے کا تین اور کمپنیوں نے غلط استعمال کیا ہے۔ یہ کمپنیاں ہیں ڈائمنڈ آر یو ایس، سولر ایکسپرٹس اور اسٹیلر ڈائمنڈ۔ یہ تینوں نیرو مودی اور میہل چوکسی کی کمپنیاں ہیں۔ ان کمپنیوں نے کتنا نقصان پہنچایا ہے اس کا بھی اندازہ کیا جانا باقی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ خسارہ 3000 سے 5000 کروڑ روپے کا ہو سکتا ہے۔

کانگریس نے مودی حکومت کے نعرہ ’اُڑان‘ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ شاید اسی لیے حکومت اُڑان کا نعرہ دیتی ہے، کیونکہ ان کی حکومت میں ہر گھوٹالے باز اُڑ جاتا ہے، اور اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں ہوتا۔

کانگریس نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ حکومت جس طرح اس معاملے میں انجان بننے کی اداکاری کر رہی ہے وہ ایک دھوکہ ہے۔ کانگریس کے مطابق وزیر اعظم دفتر، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، کارپوریٹ افیئرس وزارت، سیریس فراڈ انویسٹی گیشن دفتر اور سیبی جیسے سرکاری اداروں اور دفتروں کو اس گھوٹالے کی مئی 2015 سے جانکاری تھی۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ گجرات اور مہاراشٹر حکومت کو بھی اس سب کی جانکاری تھی۔

کانگریس نے کچھ حلف ناموں کو جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 7 مئی 2015 کو ویبھو کھرانیا نامی شخص اور آر ایم گرین سولیوشنز پرائیویٹ لمیٹڈ نے وزیر اعظم دفتر، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ اور ایس ایف آئی او کو شکایت بھیجی تھی۔ ایسی ہی شکایت ممبئی میں ڈپٹی پولس کمشنر سے کی گئی تھی۔

کانگریس نے ایسے ہی ایک دیگر شخص دگ وجے سنگھ جڈیجہ کا تذکرہ کیا ہے۔ اس کے مطابق دگ وجے سنگھ جڈیجہ نے گجرات کے احمد آباد میں اکونومک آفینس وِنگ میں میہل چوکسی کے خلاف دھوکہ دہی کا کیس درج کرایا تھا۔ یہ معاملہ بعد میں گجرات ہائی کورٹ میں چلا گیا جہاں 20 جولائی 2016 کو ایک حلف نامہ کے ذریعہ جڈیجہ نے بتایا کہ میہل چوکسی کے اوپر بینکوں کا 9872 کروڑ روپیہ بقایہ ہے اور وہ ملک چھوڑ کر بھاگنے والا ہے۔

مودی حکومت کی ’اُڑان نیتی‘ سے اُڑ جاتے ہیں گھوٹالے باز

اس کے علاوہ 26 جولائی 2016 کو وزیر اعظم دفتر میں ہری پرساد کے ذریعہ درج کرائی گئی شکایت بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس گھوٹالے کی جانکاری حکومت اور اس کے محکموں کو پہلے سے دے دی گئی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

کانگریس نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیر اعظم مودی ذاتی طور پر میہل چوکسی کو جانتے تھے۔ اس تعلق سے کانگریس پارٹی نے ایک تقریب کا ویڈیو بھی جاری کیا ہے جس میں وزیر اعظم مودی چوکسی کو ’ہمارے میہل بھائی‘ کہہ کر خطاب کرتے نظر آ رہے ہیں۔ کانگریس نے کہا کہ اس کے علاوہ نیرو مودی داووس میں وزیر اعظم مودی کے ساتھ دیکھے جاتے ہیں، لیکن اب مودی حکومت انھیں پہچاننے سے انکار کر رہی ہے۔

کانگریس نے مودی حکومت سے کئی سوال بھی پوچھے ہیں۔ پارٹی نے پوچھا ہے کہ کیا اس معاملے میں آڈٹ اور فراڈ کا پتہ لگانے کے پورے عمل کو قصداً نظر انداز کیا گیا۔ پارٹی ترجمان رندیپ سرجے والا نے سوال کیا کہ مودی حکومت ان پانچ سوالوں کا جواب کیوں نہیں دے رہی ہے جو ان سے کل پوچھے گئے تھے۔ کانگریس نے جو سوال پوچھے تھے وہ یہ ہیں:

  • کیا یہ گھوٹالہ بڑھ کر 21306 کروڑ کا ہو گیا ہے؟
  • بینکوں کا کل خسارہ کتنا ہے؟
  • سرکار اس پر خاموش کیوں ہے؟
  • کیا وزیر اعظم، ان کے دفتر، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، کارپوریٹ افیئر وزارت، ایس ایف آئی او، سیبی اور گجرات اور مہاراشٹر کی حکومتوں کو 7 مئی 2015 سے ہی اس گھوٹالے کی جانکاری تھی؟
  • اس سب پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Feb 2018, 7:17 PM