’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم سے خواتین کا تحفظ مرکزی موضوع بن گیا، ووٹنگ پر بھی نظر آئے گا اس کا اثر
ہاتھرس، اناؤ اور بالکل حال کا بلند شہر واقعہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے، اس لیے ووٹنگ پر ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم کا اثر ہونے کے امکانات سے بی جے پی لیڈر بھی انکار نہیں کرتے۔
بھلے ہی بی جے پی کریڈٹ نہ دینا چاہے لیکن کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی کی ’لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں‘ مہم نے خواتین کے تحفظ کے ایشو کو انتخابات کا مرکزی موضوع بنا دیا ہے۔ کسان تحریک اور آوارہ مویشیوں کے ساتھ یہ خواتین کے تحفظ کا مسئلہ ایسا ہے جس پر برسراقتدار پارٹی بیک فٹ پر ہے۔ بلکہ خواتین اور نظام قانون کے معاملے میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ سے لے کر وزیر اعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ سب سے زیادہ بول رہے ہیں اور عوام ان کا جائزہ بھی لے رہی ہے۔
اس سلسلے میں بی جے پی کی ’تشہیر‘ کا اثر تو ہے لیکن چونکہ ہاتھرس، اناؤ اور بالکل حال کا بلند شہر واقعہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ اس لیے ووٹنگ پر اس ایشو کا اثر ہونے کے امکانات سے بی جے پی لیڈر بھی انکار نہیں کرتے۔ یوگی کی تعریف کرتے ہوئے بھی گوسائی گنج باشندہ سریش کہتے ہیں کہ ’’ابھی تو خواتین اور تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لیے سب سے زیادہ فکر سیکورٹی کی ہی ہے۔ کانگریس کی لڑکی ہوں، لڑ سکتی ہوں مہم کا بھی اثر خواتین میں دیکھا جا رہا ہے۔ خواتین بھی اس امید میں ہیں کہ جو بھی حکومت بنے، وہ ان کی سیکورٹی کے انتظام کو مضبوط کرے گی۔‘‘
اب بھی یہ مانا جاتا ہے کہ کنبہ کے مرد مکھیا کے اثر میں آ کر ہی بیشتر خواتین ووٹ کرتی ہیں۔ ویسے یہ سماجی مطالعہ کا موضوع ہے کہ تعلیم کے فروغ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کا چلن بڑھنے کے بعد بھی کیا خواتین، خصوصاً عورتیں بھی ایسا ہی کر رہی ہیں یا نہیں۔ جون پور کی سمن کہتی بھی ہیں کہ ’’خواتین کا تحفظ ہمیشہ مسئلہ رہا ہے۔ خواتین کو پہلے مضبوط بنائیں گے، تبھی وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھائے گی اور فیصلہ لے سکتی ہیں۔ موجودہ حالات میں بیشتر خواتین ناخواندگی کی وجہ سے فیصلہ لینے کی حالت میں ہی نہیں ہیں۔‘‘
بی جے پی کو بھروسہ ہے کہ مرکز کے کئی سارے منصوبوں کا فائدہ غریب خواتین کو ملا ہے اور اس وجہ سے ان کا جھکاؤ ان کی طرف ہوگا۔ ایسے منصوبوں کا فائدہ متوسط طبقہ کی خواتین کو تو ملا نہیں ہے، اس لیے بی جے پی اس طبقہ کو فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ذریعہ اپنے حق میں کرنے کی کوشش میں ہے۔ ترقی پذیر مسلم خواتین بھی اپنے ایشوز کو لے کر متبادل کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ ایسے میں رِچا کی فکر دلت خواتین کو لے کر ہے۔ وہ مانتی ہیں کہ اس انتخاب میں مایاوتی اپنے جارحانہ انداز میں نہیں نظر آ رہی ہیں اس لیے دلت خواتین کا طبقہ بی ایس پی کے علاوہ کسے منتخب کرتا ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔ وہ یہ بھی دھیان دلاتی ہیں کہ ہر پارٹی نے خاتون ووٹروں کو متوجہ کرنے کے لیے نعرے تیار کیے ہیں۔ لیکن ابھی نعرے آتے ہیں تو سوشل میڈیا پر اس کی فوراً کاٹ بھی آ جاتی ہے۔ اس لیے صرف نعروں کی بنیاد پر انتخاب نہیں جیتے جا سکتے۔
علی گنج باشندہ ارون سنگھ کی رائے ہے کہ خواتین کا ’ویژن‘ صاف ہے۔ اب وہ بھی سیاسی طور سے بیدار ہو گئی ہیں۔ وہ سیاسی پارٹیوں کے طرح طرح کے ایشوز سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوتیں۔ ان میں سیکورٹی کا جذبہ اہم ہے۔ ارون یہ بھی کہتے ہیں کہ خواتین اپنا ووٹ کسی کو بھی دے کر ضائع نہیں کریں گی، وہ دیکھیں گی کہ کون انھیں لے کر سنجیدہ ہے اور اس کی زمین پر گرفت کتنی مضبوط ہے۔
سرلا بھی یہ تو مانتی ہیں کہ مودی-یوگی حکومت میں مفت راشن اور گیس سلنڈر ملے، لیکن وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ گزشتہ اکھلیش حکومت کے دوران خواتین کو پریشان کرنے والوں پر 1090 منصوبہ کے ذریعہ لگام لگی تھی۔ اس وقت وہ انتظام بھی چوپٹ ہو گیا ہے۔ خواتین کے تحفظ کو لے کر حکومت کے دعوے اور کاموں کو بھی دیکھا ہے۔ وہ یہ تک کہہ جاتی ہیں کہ وہ جب سے پیدا ہوئی ہیں، تب سے کئی بار حکومتیں بدلیں، لیکن 10 سال سے سڑکیں، نالیاں سب ایسی ہی ہیں۔ ترقی کا ہنگامہ ہوتا ہے، لیکن وہ کہاں ہوتا ہے دکھائی نہیں دیتا۔
(’نوجیون انڈیا‘ کے لیے لکھے گئے راج کمار اپادھیائے کے ہندی مضمون کا ترجمہ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔