طلاق ثلاثہ بل لوک سبھامیں پاس،سبھی ترمیم خارج
گزشتہ تقریباً ایک سال سے موضوع بحث رہے تین طلاق کے بل سے متعلق سبھی ترمیم کو خارج کر دیا گیا۔ اب یہ بطل منظوری کے لیے راجیہ سبھا بھیجا جائے گا۔
صدیوں سے چلی آ رہی تین طلاق کا رواج یعنی طلاق بدعت کے خلاف محض 7 گھنٹے بحث کے بعد لوک سبھا نے بل پاس کردیا۔ اس بل پر ترمیم سے متعلق کئی مشورے سامنے رکھے گئے لیکن سبھی کو خارج کر دیا گیا۔
جمعرات کو مودی حکومت نے دوپہر تقریباً ساڑھے بارہ بجے بل پیش کیا جسے شام ساڑھے سات بجے تک پاس کر دیا گیا۔ بل پر بحث کا جواب دیتے ہوئے آخر میں وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اپنے جواب میں کہا کہ ”یہ بل مذہب، اعتماد اور عبادت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ جنڈر جسٹس اور جنڈر ایکوئلٹی سے جڑا معاملہ ہے۔ اگر ملک کی مسلم خواتین کے مفاد میں کھڑا ہونا جرم ہے تو ہم یہ جرم دس بار کریں گے۔“
بل پیش ہونے کے دن کیا کیا ہوا دیکھیں: طلاق ثلاثہ بل لوک سبھا میں پیش، کئی پارٹیوں کو اعتراض
کانگریس نے بھی اس بل کی حمایت کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اس میں خامیاں ہیں جنھیں دور کرنے کے لیے اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہیے۔ اب اس بل کو راجیہ سبھا میں پیش کیا جائے گا۔ اس بل پر اے آئی ایم آئی ایم کے لیڈر اسدالدین اویسی نے تین ترمیم کا مشورہ دیا۔ لیکن ووٹنگ کے وقت پہلے دونوں ترمیم صوتی ووٹوں سے خارج ہو گئے۔ دونوں ترمیم کے حق میں صرف دو دو ووٹ آئے۔ اس کے بعد تیسرے ترمیم میں اویسی کو صرف ایک ووٹ ہی ملا۔ بل پاس ہونے کے بعد اسدالدین اویسی نے کہا ”اس سے مسلم خواتین کو انصاف نہیں ملے گا۔ یہ بل شادیوں کو توڑنے کے لیے ہے۔ اس بل کے ذریعہ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جائے گا۔“
وزیر قانون نے اس بل کی حمایت میں کئی اسلامی ممالک کا حوالہ دیا جن میں بنگلہ دیش، پاکستان اور دوسرے ممالک شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ”کوئی بھی شخص جو اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا ہے، کسی بھی طرح کا طلاق دینے کے بعد ایسا کرنے کی تحریری شکل میں اطلاع دے گا اور اس کی ایک کاپی بیوی کو بھی دستیاب کرائے گا۔ ایسا نہ کرنے پر جرمانہ یا ایک سال کی جیل یا پھر جیل کے ساتھ 5000 روپے کا جرمانہ بھی بھرنا پڑ سکتا ہے۔“
روی شنکر پرساد نے اس سلسلے میں مزید کہا کہ ”ہم نے بہت چھوٹا سا بل بنایا ہے۔ اس میں طلاق بدعت کو غیر قانونی بتایا گیا ہے۔ اگر آپ تین طلاق کہیں گے تو آپ جیل جائیں گے۔ آپ کو اپنی بیوی اور بچوں کو معاوضہ دینا ہوگا۔ آپ کی بیوی کو نابالغ بچوں کی پرورش کا اختیار مانگنے کا حق ہوگا۔ ملزم کو پولس سے ضمانت نہیں ملے گی، وہ عدالت میں مجسٹریٹ کے پاس ضمانت کے لیے درخواست کر سکتا ہے۔ مجسٹریٹ کے پاس وہ اختیار ہے کہ وہ حیثیت اور انکم دیکھ کر معاملے پر غور کرے گا۔“
واضح رہے کہ اس بل کے مطابق ”زبانی، تحریری یا کسی الیکٹرانک طریقے سے ایک ساتھ تین طلاق (طلاق بدعت) دینا غیر قانونی اور غیر ضمانتی ہوگا۔ تین طلاق دینے والے شوہر کو تین سال کی سزا کے علاوہ جرمانہ بھی دینا ہوگا۔ ساتھ ہی اس میں خاتون اپنے نابالغ بچوں کی کسٹڈی اور گزارا بھتہ کا دعویٰ بھی کر سکے گی۔“
ملک میں گزشتہ ایک سال سے تین طلاق کے ایشو پر جاری بحث اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے بعد حکومت نے اس بل کا مسودہ تیار کیا۔ سپریم کورٹ پہلے ہی تین طلاق کو بنیادی حق کے خلاف اور غیر قانونی قرار دے چکا ہے۔ کانگریس نے تین طلاق بل پر کہا کہ حکومت اگر منمانی کرتی ہے اور بل سپریم کورٹ کی ہدایات کے دائرے میں نہیں ہوگا تو وہ اس کی مخالفت کرے گی۔ لوک سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد کانگریس نے کہا کہ وہ راجیہ سبھا میں اس بل پر ترمیم کی بات رکھے گی۔
کانگریس ممبر پارلیمنٹ سشمتا دیو کا کہنا ہے کہ آخر حکومت اس بل کو پاس کرنے کے لیے اتنی جلد بازی میں کیوں تھی۔ انھوں نے بل میں کئی خامیاں بتاتے ہوئے کہا کہ اگر لوک سبھا میں اور زیادہ خاتون ممبران پارلیمنٹ ہوتیں تو حکومت کے ذریعہ لایا گیا ’خامیوں سے پر بل‘ کبھی پاس نہیں ہوتا۔ انھوں نے سوال کیا کہ حکومت پارلیمنٹ میں خاتون ریزرویشن بل کیوں نہیں لا رہی ہے؟
آل انڈیا مسلم پرسنل لاءبورڈ نے مرکزی حکومت کے تین طلاق بل کو خواتین کے حق کے خلاف بتاتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس سے کئی فیملی برباد ہو جائیں گے۔ بورڈ نے کہا کہ یہ مسلم مردوں سے طلاق کا حق چھیننے کی بہت بڑی سازش ہے۔ بل کو غیر قانونی بتاتے ہوئے بورڈ نے حکومت سے اسے واپس لینے کی اپیل کی ہے۔
دوسری طرف مسلم ویمن بورڈ کی سربراہ شائستہ عنبر کا کہنا ہے کہ نکاح ایک معاہدہ ہوتا ہے، جو بھی اسے توڑے اسے سزا ملنی چاہیے۔ حالانکہ اگر بل قرآن اور آئین کے مطابق نہیں ہے تو کوئی بھی مسلم خاتون اسے منظور نہیں کرے گی۔
اس سے قبل بحث کے دوران تین طلاق بل پر ایوان میں کانگریس کے کچھ رکن اپنی بات رکھنا چاہتے تھے لیکن لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن نے یہ کہتے ہوئے اجازت نہیں دی کہ انھوں نے پہلے سے اس ایشو پر بولنے کے لیے کوئی نوٹس نہیں دیا تھا۔ حالانکہ اس بل پر کانگریس کا رخ صاف ہے اور پارٹی نے بل کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن بل کے مسودہ سے متعلق کانگریس کے کچھ سوالات ہیں جس کا وہ جواب چاہتی ہے اور ساتھ ہی اس بل میں کچھ ترمیم کی بھی خواہش مند ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر ملکارجن کھڑگے نے ایوان میں کہا کہ سبھی لوگ خواتین کو اختیار دینے کے حق میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اس بل کو پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی میں بھیجا جانا چاہیے۔
دوسری طرف ایوان میں تین طلاق بل کی اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے مخالفت کی۔ انھوں نے بل کو بنیادی حق کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا۔ اے آئی ایم آئی ایم نے بل کے مسودے پر سوال کھڑا کیا اور پوچھا کہ بل پر مسلم فریق کی رائے کیوں نہیں لی گئی۔ انھوں نے اسے خواتین کی پریشانی بڑھانے والا بل قرار دیا۔
پارلیمنٹ میں تین طلاق سے متعلق بل کے پیش ہونے کے بعد وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس دن کو تاریخی دن بتایا اور کہا کہ بل مسلم خواتین کے لیے جنسی انصاف کو یقینی بنانے میں اہم کردار نبھائے گا۔ ایوان میں وزیر قانون نے کہا کہ سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے کے بعد تین طلاق سے متعلق 100 معاملے سامنے آ چکےہیں۔ روی شنکر پرساد نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے رہتے کسی مسلم خاتون کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوگی۔
تین طلاق بل پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے بعد کئی مقامات پر خواتین میں خوشی کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ آل انڈیا مسلم مہیلا پرسنل لاء بورڈ کی صدر شائستہ عنبر نے اس بل کو ایوان میں پیش کرنے کی تعریف کی۔ انھوں نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’سبھی ممبران پارلیمنٹ تین طلاق سے متعلق بل کو پاس کرانے میں حکومت کا ساتھ دیں۔‘‘
واضح رہے کہ ’مسلم وومن پروٹیکشن آف رائٹس آن میریج بل 2017‘ تین طلاق یا زبانی طلاق کو جرم قرار دیتا ہے اور اس کے مجرم کو تین سال کی جیل کے ساتھ ساتھ جرمانے کی بھی سزا ہے۔ یہ مسلم خواتین کو دیکھ بھال اور بچے کی نگرانی کا حق عطا کرتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Dec 2017, 9:00 PM