یوپی میں ایکشن موڈ میں کانگریس، یاترا کے بعد علمائے کرام سے رابطہ قائم کرنے کی مہم

عمران مسعود نے کہا کہ انہیں رابطہ مہم کی تحریک گنگوہ میں واقع درگاہ شاہ قطب سے ملی۔ انہوں نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ مدارس اور خانقاہیں معاشرے کو بیدار اور زندہ رکھے ہوئے ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

سہارنپور: لوک سبھا انتخابات کی تیاریوں کے پیش نظر کانگریس اتر پردیش میں کافی سرگرمی دکھا رہی ہے. 500 کلومیٹر یوپی جوڑو یاترا کے 8 دن مکمل ہو چکے ہیں اور سہارنپور کے کانگریس لیڈر عمران مسعود نے علما سے رابطہ قائم کرنے کی ایک نئی مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کی شروعات گنگوہ سے کی گئی ہے۔ یہ وہی گنگوہ ہے جہاں کے مولانا رشید احمد گنگوہی نے دنیا کے مشہور دارالعلوم دیوبند مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی۔ علماء سے ربط کے دوران ایک درجن لیڈر مختلف مدارس اور خانقاہوں کا دورہ کر کے شیعہ اور سنی علمائے کرام سے ملاقات کر رہے ہیں۔ اس دوران تمام طرح کے گلے شکوے دور کر کے ملک کے مفاد میں کانگریس کے ساتھ کھڑے ہونے کی اپیل کی جا رہی ہے۔

اس کارواں بیداری ملت میں سجادہ نشین درگاہ مخدوم علاؤالدین علی احمد صابر کلیر کے سجادہ نشین علی شاہ منظر صابری، شاہ قطب عالم گنگوہ سے شاہ مہتاب عالم شیخ الہند مولانا محمود الحسن کے پوتے مولانا فرحت میاں اور شیعہ برادری میں انتہائی قابل احترام اور جوگی پورہ درگاہ کے مولانا فرحت میاں جیسے علمائے کرام شامل ہیں۔ یہ وفد بدھ کے روز بریلی پہنچا اور اعلیٰ حضرت درگاہ میں علمائے کرام سے گفتگو کی۔ اس حوالہ سے عمران مسعود نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا مواصلاتی نظام کمزور ہو چکا تھا، ہم اسے مضبوط کر رہے ہیں اور علمائے کرام سے گفتگو کر کے اپنی غلطیوں کی اصلاح کر رہے ہیں۔


عمران مسعود نے کہا ’’رابطہ مہم کی تحریک گنگوہ میں واقع درگاہ شاہ قطب سے ملی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ بعض لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہے کہ وہ مدارس اور خانقاہوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ مدارس اور خانقاہیں معاشرے کو بیدار اور زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم میں سچ بولنے کی ہمت نہیں ہوگی، ہم زندہ کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس رابطہ مہم کے ذریعے ہم علمائے کرام کو طبقہ کے سیاسی مسائل سے آگاہ کر کے ان سے مدد مانگ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیوبند، بریلی اور جوگی پورہ کے ہر دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ آج کمیونٹی کو سیاسی بیداری کی ضرورت ہے۔ ہمیں ہر جگہ بہت اچھا رسپانس ملا ہے۔‘‘

عمران مسعود بتاتے ہیں کہ حال ہی میں راہل گاندھی نے یوپی کانگریس کے لیڈروں سے بات کی تھی۔ وہاں انہوں نے ایسی مہم کے حوالے سے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اب یہ ایک کامیاب مہم بن چکی ہے۔ علمائے دین نے ہمیشہ قوم کی رہنمائی کا کام کیا ہے۔ بریلی پہنچنے والے عمران مسعود نے کہا ’’ہماری برادری نے جدوجہد آزادی میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا ہے لیکن آج وہ لوگ ہم سے وفاداری کا سرٹیفکیٹ مانگ رہے ہیں، جن کا جدوجہد آزادی میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ آج مسلم ووٹوں کی اہمیت ختم ہو گئی ہے کیونکہ ہم جس کو جیتنا چاہتے ہیں وہ نہیں جیتتا اور جسے ہم ہارنا چاہتے ہیں وہ نہیں ہارتا۔ ہم کانگریس سے براہ راست رابطہ چاہتے ہیں۔ راہل گاندھی ملک کی سب سے نڈر آواز ہیں۔‘‘


اس مہم میں شامل درگاہ عالیہ نجف ہند جوگی پورہ سے تعلق رکھنے والے مولانا فرحت میاں کا کہنا ہے ’’سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ہم برادری کے اتحاد، ان میں بیداری اور ایک دوسرے کے مقصد میں شامل ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ عمران مسعود اپنے ساتھ بہت سے علمائے دین اور سجادہ نشین کلیار شریف لائے تھے، انہوں نے کہا کہ ملکی سیاست کو محبت کی ضرورت ہے۔ ہر طرف نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں جب لوگوں میں تفرقہ پیدا ہو رہا ہے، سب کے لیے متحد ہو کر اپنے مسائل پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے ہم ان کی حمایت کرتے ہیں۔ قبل ازیں صدر ارم عباس زیدی اور عالیہ نجف درگاہ جوگی پورہ کے سکریٹری مولانا قاسم عباس زیدی نے اس ربط مہم کا بھرپور خیر مقدم کیا۔‘‘

بدھ کو بریلی پہنچنے والے علمائے کرام کی طرف سے رابطہ مہم کو مثبت جواب ملا۔ 3 روزہ مہم کی کامیابی کو دیکھتے ہوئے عمران مسعود اس میں اضافہ کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ علمائے کرام کا قوم پر گہرا اثر ہے۔ نہ صرف دیوبند اور بریلی بلکہ وہ پورے یوپی کے علمائے کرام سے مل کر پیغام دینا چاہتے ہیں۔ یہ پیغام امن اور بھائی چارے کے لیے ان کے تعاون کے بارے میں ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یوپی جوڑو یاترا نکالنے والے کانگریس کے ریاستی صدر اجے رائے اس مہم سے اتنے متاثر ہوئے کہ یاترا کے بیچ میں وہ عمران مسعود کی دعوت پر مراد آباد خانقاہ پہنچے، جہاں انہوں نے چادر پوشی بھی کی۔ مراد آباد میں یوپی جوڑو یاترا کو بھی اچھا تعاون ملا۔ مرادآباد کے سیاسی ماہر زبیر احمد کا کہنا ہے کہ کانگریس کا سرگرم ہونا اچھی بات ہے لیکن یہ سلسلہ تھمنا نہیں چاہئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔