ریلوے بورڈ ممبر کے خط پر جئے رام رمیش نے پوچھا سوال ’کیا سی بی آئی اس کی بھی جانچ کرے گی؟‘

ریلوے بورڈ رکن کے ذریعہ لکھے گئے خط میں مختلف زونل ریلوے پر ہونے والے نکات کو شامل کرتے ہوئے غیر محفوظ حصہ سے متعلق پانچ حادثات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
جئے رام رمیش، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

سی بی آئی بالاسور ٹریپل ٹرین حادثہ کی جانچ کر رہی ہے، وہیں کانگریس نے بدھ کے روز ریلوے بورڈ کے ایک رکن کے ذریعہ لکھے گئے خط میں پیش کیے گئے پانچ معاملوں پر سوال اٹھایا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا سی بی آئی اس کی بھی جانچ کرے گی؟ کانگریس جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ریلوے بورڈ ممبر انفراسٹرکچر آر این سندر کے ذریعہ رواں سال 3 اپریل کو جنرل منیجرس کو لکھے خط پر روشنی ڈالی۔ ایک ٹوئٹ میں انھوں نے کہا کہ ’’جب سی بی آئی بالاسور ٹرین حادثے کی جانچ کر رہی ہے تو کیا یہ بھی پوچھ تاچھ کرے گی کہ یہ خط کیوں لکھا گیا اور اس کے بعد کیا کارروائی کی گئی؟‘‘

ریلوے بورڈ ممبر کے ذریعہ لکھے گئے خط میں زونل ریلوے پر ہونے والے نکات کو شامل کرتے ہوئے غیر محفوظ حصہ سے متعلق پانچ حادثات پر روشنی ڈالی گئی۔ سندر کے ذریعہ جنرل منیجرس کو لکھے خط میں ان حادثات کو فکر انگیز اور سنگین بتایا گیا ہے۔ اس میں تذکرہ ہے کہ سوئچ یا ٹرن آؤٹ بدلنے کے لیے بلاک کے بعد پوائنٹس کے مناسب جائزہ کے بغیر سگنل گیئر کو ایس اینڈ ٹی ملازمین کے ذریعہ پھر سے جوڑا گیا تھا، ابتدائی کاموں کے دوران غلط وائرنگ، سگنل ناکامی کو ٹھیک کرنا وغیرہ، اس طرح کے عمل مینوئل اور کوڈل سہولیات کے کمزور پڑنے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں ٹرین ٹرانسپورٹیشن کو روکے جانے کی ضرورت ظاہر کی گئی۔


جئے رام رمیش نے کہا کہ مذکورہ باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ ریلوے بورڈ کی بار بار ہدایت کے باوجود زمینی حالات میں بہتری نہیں ہو رہی ہے اور سگنل ملازمین سائٹ سے خط کی جانچ کیے بغیر سگنل کلیئر کرنے کے لیے شارٹ کٹ طریقے اپنا رہے ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں بنیادی ڈھانچے کا کام جاری ہے، ان میں سخت اہداف کے ساتھ ہر سطح پر اوپن لائن کے افسران اور ملازمین کو شامل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، حالانکہ وقت پر کام شروع کرنے کے لیے افسران اور ملازمین کو سگنلنگ کی انٹگریٹی یقینی کرنے کے لیے حساس بنانے کی ضرورت ہے۔ سیکورٹی کے نظریہ سے یہ سسٹم بہت ضروری ہے۔ ڈویژن اور ہیڈکوارٹر سطح پر ہفتہ وار سیکورٹی میٹنگوں میں ان پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ممبر انفراسٹرکچر نے رواں سال جنوری سے مارچ تک کئی ٹرینوں سے جڑے پانچ حادثات پر بھی روشنی ڈالی۔ پہلا واقعہ 23 جنوری کو لکھنؤ میں ٹرین نمبر 22454 سے متعلق پیش آیا تھا، جسے واشنگ لائن زون میں داخل کرنے کے لیے این ای آر کی آمد کے لیے اشارہ دیا گیا تھا۔ دوسرا واقعہ 8 فروری کو ہوسدرگا اسٹیشن پر پیش آیا جہاں ٹرین نمبر 12649 کے لیے کامن لوپ سے اَپ مین لائن کے لیے روٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے لیے ریورس میں پوائنٹ 64 اور 65 کی ضرورت تھی، لیکن ڈرائیور نے سیٹ پر پوائنٹ 65 کو نارمل دیکھا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ بی پی اے سی کی ناکامی کا سامنا کرنے کے دوران یہ سگنل منٹینر کے ذریعہ اپنایا گیا شارٹ کٹ ہے۔


اسی طرح تیسرا واقعہ 18 فروری کو لدھیانہ ریلوے اسٹیشن پر پیش آیا تھا جب ٹرین نمبر 22480 کی پاور سگنل موومنٹ کے دوران پوائنٹ 286 پر پٹری سے اتر گئی تھی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ابتدائی جانکاری سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی آر آر وَرک کے بعد مناسب ٹھہراؤ یقینی کیے بغیر پوائنٹ کو پھر سے جوڑ دیا گیا ہے۔ چوتھا حادثہ 28 فروری کو کھارکوپر ریلوے اسٹیشن پر سامنے آیا جہاں پی ایف-1 کی آمد کے لیے سیدھی روٹ سگنل والی ڈی این لائن لوکل ایمرجنسی ایکس-اوور 101 کے اوپر سے گزرتے وقت پٹری سے اتر گئی۔ ابتدائی جانچ سے پتہ چلتا ہے کہ آٹو سیکشن کو چالو کرنے کے لیے پرائمری وَرک کے دوران ریلے روم میں غلط وائرنگ کی گئی تھی۔ پانچویں واقعہ کی اطلاع 22 مارچ کو بگرتوا ریلوے اسٹیشن سے متعلق دی گئی تھی، جہاں اَپ مین لائن سے ڈسپیچ کے لیے سگنل دینے والی ایک مال گاڑی ایمرجنسی ایکس-اوور (101اے/بی) کے ذریعہ سے ڈاؤن مین لائن پر آ گئی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔