مودی کی ’اصلاحی پالیسیوں‘ نے ہندوستان کی معیشت کو اپاہج کر دیا: راہل گاندھی
کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی نے نوٹ بندی کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنے خیالات کا اظہارلندن کے مشہور اخبار ’فنانشیل ٹائمز‘ کے لیے تحریر ایک مضمون میں کیا ہے۔ انھوں نے نوٹ بندی اور جی ایس ٹی سے پیدا ہوئے خطروں اور چیلنجز سے آگاہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی تباہکار پالیسیوں پر تنقید کی ہے۔ راہل نے چین کی مثال دے کر ملک کی معاشی حالت کو آئینہ بھی دکھایا ہے۔ پیش ہے راہل گاندھی کے اس مضمون کا ترجمہ:
ایک سال قبل نریندر مودی نے انڈین ریزرو بینک (آر بی آئی) کو درکنار کر اپنی کابینہ کو کمرے میں بند کر دیا اور اپنے من مانے اور یکطرفہ فیصلے سے ملک کو صرف 4 گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے نوٹ بندی کا اعلان کر دیا اور چند گھنٹوں میں ہی ملک کی 86 فیصد کرنسی کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔
وزیر اعظم نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے فیصلے کا مقصد بدعنوانی کو ختم کرنا ہے، لیکن بارہ مہینوں کے بعد اگر کچھ ختم ہوا ہے تو وہ ہے پھلتی پھولتی معیشت۔ نوٹ بندی سے ملک کی جی ڈی پی کو دو فیصد کا نقصان پہنچا، اس نے غیر منظم مزدور سیکٹر کو تباہ کر دیا اور لاتعداد چھوٹے اور متوسط طبقہ کی صنعتوں اور کاروباروں کو ختم کر دیا۔ نوٹ بندی نے لاکھوں محنتی ہندوستانیوں کی زندگی کوبھی تباہ کر دیا۔ سی ایم آئی آئی یعنی ’سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی‘ کے اندازہ کے مطابق نوٹ بندی کے سبب 2017 کے پہلے 4 مہینوں میں 15 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی ملازمتیں گئیں یا ان کا کام چھوٹ گیا۔
اس سال جلد بازی میں ایک اور قدم اٹھایا گیا، بے حد غیر منظم اور خراب طریقہ سے جی ایس ٹی قانون نافذ کر دیا گیا جس نے ہماری معیشت کو ایک اور زبردست جھٹکا دیا۔ انتہائی پیچیدہ اور پریشان کن اس ٹیکس نے لوگوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل کر دیا۔اس قانون نے جدید دور میں ایک ایسا ’لائسنس راج‘ شروع کر دیا جس کے سبب سرکاری افسروں کا غیر محدود اختیارات کے ساتھ کاروباروں پر کنٹرول ہو گیا۔
یہ دو قدم ایسے وقت میں اٹھائے گئے جب دنیا بھر کی نظریں ہندوستان کے معاشی ماڈل پر لگی ہوئی تھیں۔ کسی بھی ملک کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ملازمت مہیا کرائے۔ دفتروں والی ملازمتوں یعنی’ بلو کالر جاب ‘ میں چین کی بالادستی سبھی ممالک کے لیے فکر کا سبب اور چیلنج ہے۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر کےبے روزگار اور مزدور طبقہ میں مایوسی پھیل گئی ہے اور انہوں نے اپنا غصہ ووٹ کے ذریعہ نکالا شروع کر دیا ہے۔ بھلے ہی یہ ووٹ مودی کو ملے ہوں، بریگزٹ کی بات ہو یا پھر ڈونالڈ ٹرمپ کی جیت ہو، یہ سب اسی غصہ کی علامتیں ہیں۔
جمہوری طریقے سے منتخب مودی جیسے آج کے بے قابو حکمراں یا تاناشاہوں کا عروج دو وجوہات سے ہوتا ہے۔ اول زبردست ربط اور اداروں و تنظیموں پر اس کااثر اور دوئم ورلڈ جاب مارکیٹ میں چین کی بالادستی۔
ایک زمانہ تھا جب جمہوری ممالک میں بھی صرف اداروں کے اندر ہی اطلاعات محدود ہوتی تھیں اور بہت کم لوگوں تک ان کی رسائی ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ بات ختم ہو چکی ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعہ سبھی ایک دوسرے سےجڑے ہیں اور شفافیت نے پوری دنیا کو مثبت طور پر بدلا ہے۔ لیکن، ایسا ہونے سے اداروں کا نظام بھی تباہ ہوا ہے۔ اس صورت حال نے ایک ایسی فضا قائم کر دی ہے جس میں ایک مضبوط شخص کے بےقابو ہو کر آگے بڑھنے کے بے حد امکانات ہیں۔
ملازمت اورر روزگار کے محاذ پر مغربی ممالک نے گلوبلائزیشن، آزادانہ تجارت اور کھلے بازار کے نظریہ کو اپنا یا اور اسے نبھایا بھی، لیکن اس کے نتیجے میں خود مغرب کا مینوفیکچرسیکٹر کھوکھلا ہو کر رہ گیا ۔ خوداپنے کارخانوں میں مزدوروں کے مسائل سے نمٹنے کے بجائے مغربی اور ہندوستانی سر مایہ داروں نے اپنے پروڈکشن اور مینوفیکچرنگ کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کر لیا۔
1970 کی دہائی میں زبردست سماجی مسائل سے دو چار چین کی کمیونسٹ پارٹی نے مغرب کا راستہ اختیار کیا ۔ شاید دینگ جیاؤپنگ نے درست کہا تھا کہ ’’اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا کہ بلی کس رنگ کی ہے، اگر وہ چوہے پکڑنے میں اہل ہے تو ہمارے لئے فائدہ مند ہے۔‘‘ اور آج اس چینی بلی نے پوری دنیا کے پروڈکشن اور مینوفیکچرنگ نامی چوہے کو اپنی گرفت میں کر رکھا ہے۔
چین کی سیاسی تنظیموں نے کارخانوں اور فیکٹریوں کی شکل بدلنے کے لیے مواصلات تکنیک کا اچھی طرح استعمال کیا۔ 1990 کی دہائی میں چین کی پروڈکشن صلاحیت پوری دنیا کی پیداوار کا محض 3 فیصد تھی، لیکن آج پوری دنیا کی کل پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ ہو چکی ہے۔ پیداوار پر ان کی لاگت مغربی کمپنیوں کے مقابلے میں کافی کم ہے، وہ بڑے پیمانے پر پروڈکشن کرتے ہیں اورمزدوروں کے مسائل یا مزدوروں کے و شفافیت جیسی رکاوٹوں سے نبرد آزما نہیں ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق چین میں آج روزانہ اوسطاً 50,000 ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں، لیکن مودی حکومت محض 500 لوگوں کو ہی روزگار دے پاتی ہے۔
لیکن چینیوں کواس حصولیابی کی بڑی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ چین کے لوگوں کو بولنے کی آزادی نہیں ہے، انھیں حکومت سے کسی قسم کے سوال پوچھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ جو ایسا کرتے ہیں انھیں سخت سزا دی جاتی ہے۔ ہندوستان کو ایسے ماڈل کو نہیں اپنانا چاہیے۔
’کنکٹیویٹی‘ یعنی رابطہ اورزبر دست چینی پیداوار کے خطرے کے باوجود اب بھی مغرب اور ہندوستان میں ’بلو کالر جاب‘ کے کافی امکانات ہیں۔ چین کی پروڈکٹیویٹی یعنی پیداوار کے ساتھ بغیر رابطہ کے معیشت کو تو نقصان ہوگا، لیکن ادارے بچ جائیں گے۔ یہ دو اہم عناصر کا انضمام ہے جو خطرناک نظر آتا ہے۔
چین سے پیدا ہونے والے ’جاب چیلنجز‘ سے نمٹنے کے لئے ہندوستان کے چھوٹے اور متوسط کاروبار و تجارت ہی کارگر ہو سکتے ہیں۔ چین سے مقابلہ کے لئے نئی صلاحیتوں اور سمجھ داری بھی درکار ہے، ہمیں ایسے لوگوں کو سرمایہ اور تکنیک کے سہارے مضبوط کرنا ہوگا۔ لیکن انھیں مدد دینے کی جگہ مودی حکومت نے ان پر نوٹ بندی اور ایک مفلوج کر دینے والے ٹیکس سے ان کی کمر توڑ دی ہے۔
مودی جی نے بے روزگاری اور معاشی مواقع کی کمی سے پیدا ہو نے والے غصے کو فرقہ وارانہ نفرت میں بدل کر ہندوستان کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ وہ اپنی ناکامیوں کو نفرت کی سیاست کے ذریعہ چھپاتے ہیں۔ یہ غصہ بھلے ہی مودی کو اقتدار کی اونچائیوں پر لے گیا ہو لیکن اس سے نہ تو ملازمتیں پیدا ہو سکتی ہیں اور نہ ہی اداروں اور تنظیموں کی بقا میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 Nov 2017, 3:35 PM