آلودگی پر پابندی سے استثنیٰ کی درخواستوں پر کمیشن غور کرے گا: سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ ای یئر کوالٹی مینجمنٹ کمیشن دہلی اور قومی راجدھانی خطہ میں فضائی آلودگی کے پیش نظر جاری پابندیوں میں نرمی کی درخواستوں پر غور کرے گا
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ کو کہا کہ ای یئر کوالٹی مینجمنٹ کمیشن دہلی اور قومی راجدھانی خطہ میں فضائی آلودگی کے پیش نظر جاری پابندیوں میں نرمی کی درخواستوں پر غور کرے گا۔ چیف جسٹس این وی رمنا کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اسکول کے طالب علم آدتیہ دوبے کی طرف سے دائر پی آئی ایل معاملے میں چینی، چاول، کاغذ، عمارت کی صنعتوں سے متعلق مداخلت کی درخواستوں کے ہر پہلو پر از خود سماعت کرنے سے انکار کر دیا۔
خطرناک فضائی آلودگی کی سطح کو دیکھتے ہوئے جاری کردہ پابندیوں میں نرمی کی درخواست کرنے والی ان درخواستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ نے کہا کہ ائر کوالٹی کمیشن صورتحال کا جائزہ لے گا اور اس معاملے میں فیصلہ کرے گا۔ بنچ نے کہا کہ کمیشن ایک ہفتہ میں ان درخواستوں پر ریاستی حکومت کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لے سکتا ہے۔
چیف جسٹس رمنا اور جسٹس ڈی وائی۔ چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت نے ریاستوں سے کہاکہ جنہوں نے عمارتوں کی تعمیراتی سرگرمیوں پر پابندیوں سے متاثر مزدوروں کو اجرت ادا نہیں کی، انہیں حلف نامہ دے کر اس سلسلے میں کی گئی کارروائی سے آگاہ کریں۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وہ فضائی آلودگی کو کم کرنے کے لیے طویل مدتی اقدامات کے بارے میں ہدایات جاری کرے گی۔
سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے بنچ کو بتایا کہ آلودگی کو روکنے کے اقدامات کی خلاف ورزی کرنے والے زیادہ تر صنعتی یونٹ پکڑے گئے ہیں۔ آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تعینات فلائنگ اسکواڈز اپنا کام سنجیدگی سے کر رہے ہیں اور آلودگی کو روکنے کے لیے ہدایات کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔
دہلی اور قومی راجدھانی کے علاقے میں ہوا کے معیار میں بہتری کا حوالہ دیتے ہوئے پابندیوں میں جزوی نرمی کے مطالبہ پر بنچ نے کہا کہ آلودگی کی صورتحال کم ہونے کے بعد آہستہ آہستہ نرمی دی جا سکتی ہے۔
طالب علم دوبے کی طرف سے دائر ایک پی آئی ایل کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے 24 نومبر کو بجلی، پلمبنگ، انٹیریئر ڈیزائننگ وغیرہ کے علاوہ عمارت کی تعمیر کی دیگر تمام انتہائی آلودگی پھیلانے والی سرگرمیوں پر پہلے سے موجود پابندی کو بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔
دریں اثنا، 'ڈیولپر اینڈ بلڈر فورم' نے مداخلت کی درخواست دائر کی تھی اور سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ رہائشی یونٹوں کی تعمیراتی سرگرمیوں سے ہونے والی آلودگی کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہے۔ درخواست گزار نے آلودگی پر سنٹر فار سائنس اینڈ انوائرمنٹ اسٹڈی کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ صرف 6.7 سے 7.9 فیصد آلودگی تعمیراتی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ فضائی آلودگی کی خطرناک سطح دہلی اور قومی راجدھانی خطہ میں بڑی تعداد میں گاڑیوں، صنعتی اکائیوں کے علاوہ پڑوسی ریاستوں میں پرالی جلانے سے ہوتی ہے۔
ایڈوکیٹ نتن سلوجا کے ذریعے داخل کی گئی مداخلت کی درخواست میں چیف جسٹس سے استدعا کرتے ہوئے کہا گیا کہ 24 نومبر کو سپریم کورٹ کی تین رکنی بنچ نے تمام متعلقہ فریقوں کے خیالات سنے بغیر تمام تعمیراتی سرگرمیوں پر دوبارہ پابندی عائد کر دی تھی۔
درخواست گزار کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے باعث بار بار لاک ڈاؤن کے باعث عمارت کی تعمیر سے وابستہ تاجروں کو دو سال سے بڑا دھچکا لگا ہے۔ اس کا اثر تعمیراتی کام سے وابستہ دیگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد پر پڑا ہے۔
فورم نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ عدالتی حکم پر دہلی حکومت نے صرف مزدوروں کے لیے معاوضے کا اعلان کیا ہے، لیکن عمارت کی تعمیر میں بالواسطہ طور پر ملوث عارضی سپروائزر، منیجر اور بڑی تعداد میں لوگوں کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ مزدوروں کے علاوہ کئی لوگوں کی روزی روٹی بھی متاثر ہوئی ہے۔ ان کے سامنے روزی روٹی کا سنگین بحران پھر سے کھڑا ہو گیا ہے۔ ان تمام نکات پر غور کرتے ہوئے رہائشی تعمیرات سے متعلق سرگرمیوں میں چھوٹ دی جانی چاہیے۔
درخواست گزار کا یہ بھی کہنا ہے کہ سینٹرل وسٹا کے معاملے میں جس طرح سے مرکزی حکومت نے سنٹرل پولوشن کنٹرول بورڈ کے رہنما خطوط پر عمل کرنے کا وعدہ کیا ہے، وہ تعمیراتی سرگرمیوں میں بھی اسی طرح کے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں، لیکن انہیں تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت دی جانی چاہیے۔ .
عدالت عظمیٰ نے گزشتہ سماعت کے دوران متعلقہ ریاستوں بشمول مرکز اور دہلی حکومت کو آلودگی پر قابو پانے کے اقدامات کو سنجیدگی سے نافذ کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 3 دسمبر کو کوالٹی مینجمنٹ کمیشن کے ذریعہ تشکیل دی گئی پانچ رکنی انفورسمنٹ ٹاسک فورس کو منظوری دیتے ہوئے مرکزی اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کو ہدایت دی کہ وہ احتیاطی تدابیر کو نافذ کرنے کے لیے زمین پر کام کریں۔
چیف جسٹس رمنا، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے کمیشن کی طرف سے آلودگی کو روکنے کے اقدامات سے متعلق داخل کردہ حلف نامہ کا نوٹس لیا۔ بنچ نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا سے کہا تھا کہ وہ 2 دسمبر کی عدالت عظمیٰ کی ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
سپریم کورٹ نے حال ہی میں مرکزی اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کی سرزنش کی تھی اور انہیں 24 گھنٹے میں ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اس کے پیش نظر کمیشن نے حلف نامہ داخل کرکے انفورسمنٹ ٹاسک فورس اور 40 فلائنگ اسکواڈز کی تعیناتی سے متعلق اطلاعات فراہم کی تھیں۔
کمیشن کے حلف نامے کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا تھا کہ پانچ رکنی انفورسمنٹ ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اور فلائنگ اسکواڈز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 40 کر دی گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔