ہندوستان میں گزشتہ 5 سالوں کے دوران تقریباً 3000 فرقہ وارانہ و مذہبی فسادات کے مقدمات درج ہوئے: مرکزی حکومت
2020 میں سب سے زیادہ 857 فسادات کے مقدمات درج ہوئے، اس کے بعد 2017 میں 723، 2018 میں 512، 2019 میں 438 اور 2021 میں 378 فرقہ وارانہ و مذہبی فسادات کے مقدمات درج کیے گئے۔
مرکزی وزیر مملکت برائے داخلہ نتیانند رائے نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ 2017 اور 2021 کے درمیان یعنی گزشتہ پانچ سالوں میں ملک میں تقریباً 3,000 فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ کیرالہ سے کانگریس کے راجیہ سبھا رکن جیبی ماتھر کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے یہ جانکاری دی۔ نتیانند رائے نے کہا کہ ملک میں 2021 میں مذہبی فسادات کے 378 واقعات ہوئے۔ گزشتہ پانچ سالوں کی بات کی جائے تو 2020 میں سب سے زیادہ 857 فسادات کے مقدمات درج ہوئے۔ اس کے بعد 2017 میں 723، 2018 میں 512 اور 2019 میں 438 فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کے مقدمات درج کیے گئے۔ یہ جانکاری نتیانند رائے نے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو (این سی آر بی) کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے دی۔
قابل ذکر ہے کہ نتیانند رائے نے رواں سال مارچ کے اوائل میں لوک سبھا میں کیرالہ سے کانگریس رکن پارلیمنٹ ہیبی ایڈن کے موب لنچنگ سے متعلق سوال کے جواب میں کہا تھا کہ موب لنچنگ کے لیے کوئی علیحدہ ڈاٹا نہیں تیار کیا گیا۔ دراصل انہوں نے موب لنچنگ جیسے جرائم سے نمٹنے کے لیے خصوصی قانون کی ضرورت کا معاملہ اٹھایا تھا۔
بہرحال، تازہ جواب میں نتیانند رائے نے اس بات پر زور دیا کہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام خطوں کو 4 جولائی 2018 کو ایک ایڈوائزری جاری کی گئی تھی، جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایسی جعلی خبروں اور افواہوں کی گردش پر نظر رکھیں جن میں تشدد بھڑکانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ساتھ ہی ان سے تمام ضروری اقدامات کرنے کو کہا گیا ہے۔ ان میں قانون ہاتھ میں لینے والے افراد کے ساتھ سختی سے نمٹتے ہوئے ان کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے اقدامات بھی شامل ہیں۔ 23 جولائی 2018 اور 25 ستمبر 2018 کو بھی اس سے متعلق ایڈوائزریز جاری کی گئیں۔ اس کے بعد کوئی ایڈوائزری جاری نہیں کی گئی۔
قابل ذکر ہے کہ اپریل 2022 میں کانگریس رکن پارلیمنٹ گورو گگوئی کے ایک سوال کے جواب میں نتیانند رائے نے کہا تھا کہ ’پبلک آرڈر‘ اور ’پولیس‘ ہندوستانی آئین کے ساتویں شیڈول کے مطابق ریاستی سبجیکٹ ہیں۔ امن و امان برقرار رکھنے، اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے خلاف جرائم کے اندراج اور مقدمہ چلانے کی ذمہ داری متعلقہ ریاستی حکومتوں کی ہوتی ہے۔ بہرحال، 2021 میں جن 378 فسادات کے مقدمات درج ہوئے ہیں ان میں سے 100 معاملے جھارکھنڈ کے، 77 معاملے مہاراشٹر کے اور 22 راجستھان کے ہیں۔
این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں ان 378 کیسز میں سے 100 کیسز جھارکھنڈ میں، 77 مہاراشٹر میں، 51 کیسز بہار میں، 40 کیسز ہریانہ میں اور 22 کیسز راجستھان میں درج ہوئے۔
بطور ثبوت این سی آر بی اعداد و شمار دیکھیں:
پچھلے پانچ سالوں کے این سی آر بی کے اعداد و شمار پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اتر پردیش میں 21-2017 کے دوران فسادات کے 35,040 واقعات ہوئے۔ 2021 میں فسادات کے کم از کم 5,302 واقعات رپورٹ ہوئے، اور یہ 2017 میں 8,990 سے 41 فیصد کم ہیں۔ حالانکہ ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات میں کمی کا رجحان دیکھا گیا ہے (2017 سے 2021 تک 97 فیصد کی کمی)۔ درحقیقت این سی آر بی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2018، 2019 اور 2020 میں یوپی میں فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی معاملہ نہیں دیکھا گیا۔ این سی آر بی فسادات کے واقعات کو 15 مختلف زمروں میں درجہ بندی کرتا ہے، جن میں مذہبی، فرقہ وارانہ، ذات پات کا تنازعہ، صنعتی اور سیاسی شامل ہیں۔
2014 اور 2020 کے درمیان فسادات کے کل 4.07 لاکھ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ’فسادات‘ کے تحت ہر سال درج ہونے والے مقدمات کی مجموعی تعداد 2014 میں 66,000 سے زائد کے مقابلے 2019 میں کم ہو کر 46,209 ہو گئی۔ 2020 میں یہ بڑھ کر 51,606 ہو گئی۔
بہار، مہاراشٹر، اتر پردیش، کرناٹک اور کیرالہ میں 2014 اور 2020 کے درمیان درج مجموعی فسادات کے معاملوں کا 63 فیصد اندراج ہوا ہے۔ سات سال کی مدت میں مغربی بنگال میں فسادات کے واقعات میں تقریباً چھ گنا کمی دیکھی گئی۔ فرقہ وارانہ فسادات کے تحت 2015 میں 94 فیصد اور 2016 میں 49 فیصد معاملے یوپی میں درج ہوئے۔ تاہم، 2019 اور 2020 میں ریاست میں اس زمرہ کے تحت کوئی کیس درج نہیں کیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔