مایاوتی کا سوشل انجینئرنگ کا دعوی ندارد،بی ایس پی حاشیہ پر
انتخابات کے دوران بی ایس پی پر بی جے پی کا بی ٹیم ہونے کا بھی الزام لگاجس کی پارٹی قیادت نے مخالفت تو کی لیکن اس میں کوئی خاص دم خم دکھائی نہیں دیا۔
دلت و پسماندہ طبقات کی سیاست کی بدولت تقریبا تین دہائیوں تک اترپردیش کی سیاست میں دخل رکھنے والی بہوجن سماج پارٹی(بی ایس پی) موجودہ انتخابات میں بالکل حاشیہ پرپہنچ گئی ہےاور اس کا اپنا کور ووٹ بھی اس کے ہاتھوں سے پھسل گیا۔
سال 2017 کے انتخابات میں 19سیٹوں پر جیت درج کرنے والی بی ایس پی کو اس الیکشن میں محض ایک سیٹ ملی ہے۔سیٹو ں میں کمی کے ساتھ ساتھ ووٹ شیئر میں بھی بی ایس پی کے سال 2017 کے ووٹ میں گراوٹ درج کی گئی ہے۔ سال 2017 کے انتخابات میں بی ایس پی کو 22فیصدی سے زیادہ ووٹ ملے تھے جبکہ سال 2012 میں اس کے کھاتے میں 80اور سال2007 میں 206سیٹیں ملی تھی۔
پارٹی مخالف سرگرمیوں اور نظم شکنی کے پاداش میں مایاوتی نے پارٹی کے کئی بڑے چہروں کو باہر کا راستہ دکھایا جن میں نسیم الدین صدیقی ،سوامی پرسادموریہ، رام اچل راجبھر، اور لال جی ورما سمیت دیگر لیڈر شامل تھے۔اس درمیان بی ایس پی پر بی جے پی کا بی ٹیم ہونے کا بھی الزام لگاجس کی پارٹی قیادت نے مخالفت تو کی لیکن اس میں کوئی خاص دم خم دکھائی نہیں دیا۔
سال 2019 کے انتخابات ایس پی کے ساتھ مل کر لڑنے والی بی ایس پی کو شکست ہاتھ لگی تھی جس کا ٹھیکر بھی مایاوتی نے ایس پی صدر اکھلیش یاد و کے سر پھوڑا تھا۔ اس بیچ مایاوتی کے بیانات جہاں ایس پی کے تئیں کافی تلخ رہے تو وہیں مرکز و ریاست میں بی جے پی کے اقتدار میں ہونے کے باوجود وہ کانگریس سے ہی سوال پوچھتی نظر آئیں۔
اب بڑا سوال یہ ہے کہ کیا بی ایس پی کا قومی سیاست میں کوئی کردار بچا ہے ، کیا وہ واپسی کر سکتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں اس کا جواب یہ ہے کہ بی ایس پی کے واپسی کے امکان بہت کم ہو گئے ہیں اور اس کے کور ووٹر یا تو بی جے پی کے ساتھ چلے جائیں گے یا کانگریس کے ساتھ۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔