میڈیا پر لگام معاملہ: چیف جسٹس معاملے کو NBSA کے پاس بھیجنے کے حق میں، لیکن...
چیف جسٹس آف انڈیا معاملے کو نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈر اتھارٹی کے پاس بھیجنے کے حق میں ہیں، لیکن جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دَوے نے عدالت سے گزارش کی کہ وہ خود فیصلہ کرے۔
نئی دہلی: مسلسل زہر افشانی کر کے اور جھوٹی خبریں چلا کر مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار اور ہندو-مسلم کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃ علما ہند کی پٹیشن پر آج سپریم کورٹ میں سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے بحث کرتے ہوئے سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے اس معاملے کو نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈر اتھارٹی (این بی ایس اے) کے پاس بھیجنے کے سخت خلاف ہیں کیونکہ این بی ایس اے صرف ایک کمپنی ہے اور ان کے پاس کارروائی کرنے کے اختیارات نہیں ہیں۔
آج جیسے ہی اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڈے کی سربراہی والی تین رکنی بینچ (جس میں جسٹس اے ایس بوپننا اور جسٹس وی رام سبرامنیم شامل ہیں)کے رو برو شروع ہوئی چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کو این بی ایس اے کے حوالے کرنا چاہتے ہیں جس پر دشییت دوے نے اعتراض کیا اور کہا کہ وہ عدالت کے اس فیصلہ کے خلاف ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پھر وہ پٹیشن کو خارج کردیں گے جس پر دشینت دوے نے کہاکہ عدالت ان کے دلائل کی سماعت کیئے بغیر اس پٹیشن کو خارج نہ کرے اور انہیں بحث کرنے کے لیئے کم از کم ایک گھنٹہ چاہئے کیونکہ وہ عدالت کو اس معاملے کی سنگینی بتانا چاہتے ہیں۔
ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت سے کہا کہ یونین آف انڈیا نے اپنے حلف نامہ میں خود ا س بات کا اعتراف کیا ہے کہ این بی ایس اے نے اب تک ان نیوز چینلوں پر کارروائی نہیں کی ہے اس کے باوجود اگر عدالت اس معاملے کو این بی اے کے پاس بھیجے گا تو اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اسی دوران عدالت نے اپنی کارروائی ملتوی کردی، امید ہے کہ اس معاملے کی اگلی سماعت پر عدالت سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کے دلائل کی سماعت کے بعد فیصلہ صادر کریگی۔آج کی سماعت سے قبل ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول نے گذشتہ دنوں ہی ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بینچ کے جسٹس ٹی وی نلوڈے اور جسٹس ایم جی سیولکر کی جانب سے دیا گیافیصلہ عدالت میں داخل کیا تھا۔
این بی ایس اے کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے ایڈوکیٹ نشا بھمبانی نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس تعلق سے شکایت ملی ہیں اور اس پر کارروائی کررہے ہیں جس پر ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ این بی ایس اے ایک کمپنی ہے اور ان کے پاس سخت کارروائی کرنے کی کوئی اختیار نہیں ہے۔لہذاعدالت مرکزی حکومت کو ہدایت دے کہ وہ ان نیوز چینلوں کے خلاف کارروائی کرے۔ایڈوکیٹ دشینت دوے نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے دیڑھ سو چینلوں اور اخبارات کی کٹنگ اور تفصیلات پٹیشن کے ساتھ داخل کی ہیں جس میں انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینل شامل ہیں جنہوں نے صحافتی اصولوں کو تار تار کرتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری اور قومی یکجہتی کو نقصان پہنچانے کی ناپاک سازش چی تھی۔
دریں اثنا پریس کونسل آف انڈیا کی جانب سے ٹی گو کھانگین (انڈر سیکریٹری)نے عدالت میں چھ صفحات پر مشتمل رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ ابتک 49 پرنٹ میڈیا کے خلاف شکایت موصول ہونے کے بعد پریس کونسل پروسیجر فور انکوائر ریگولیشن 1979 کے تحت کارروائی کی جارہی ہے۔تبلیغی مرکز کو لیکر کمیونل رپورٹ کے کرنے والے اخبارات جن کے خلاف شکایت موصول ہوئی ہیں دینک جاگرن، لوک مت،دینک بھاسکر، ٹائمز آف انڈیا، نو بھارت، دی ہندو، دوییا بھاسکر، وجئے کرناٹک،دی ٹیلی گراف، اسٹار آف میسور، ممبئی سماچار، تہلکا میگزین، انڈیا ٹودے و دیگر شامل ہیں۔دوران بحث سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے کی معاونت کرنے کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکریتی چوبے، ایڈوکیٹ سارہ حق، ایڈوکیٹ نیہا سانگوان و دیگر موجود تھے۔
صدر جمعیۃ علماء ہند سید مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پر عرضی گذار جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ پر گلزار اعظمی نے آج کی عدالتی کارروائی کے بعد کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری پٹیشن پر چیف جسٹس آف انڈیا کوئی مثبت فیصلہ دیں تاکہ کمیونل رپورٹنگ کرنے والے مخصوص نیوز چینلوں کے خلاف حکومت کارروائی کرے۔ گلزار اعظمی نے مزیدکہا کہ اول دن سے ہمارے وکلاء عدالت سے گذارش کررہے ہیں کہ وہ خود اس معاملے میں فیصلہ کرے اور اس دوران وکلاء نے عدالت میں سارے ثبوت پیش کردیئے ہیں نیز نیوزبراڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن،نیوز براڈ کاسٹنگ اسٹینڈر اتھاریٹی، پریس کونسل آف انڈیا کے پاس پہلے سے ہی سیکڑوں شکایتیں درج کی جاچکی ہیں لیکن اس پر ابھی تک انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی یہ ہی وجہ ہے کہ ہم عدالت سے گذارش کررہے ہیں وہ حکومت کو ہدایت جاری کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 Aug 2020, 11:29 PM