چھتیس گڑھ: بی جے پی نے جس’اٹل چوک‘ تعمیر کا اعلان کیا وہ سالوں پہلے بن چکا

چھتیس گڑھ میں بنے ’اٹل چوک‘ کی حقیقت یہ ہے کہ اس کے بننے کے کچھ سالوں بعد ہی زیادہ تر یادگاری ستون کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔ کہیں یہ گوبر کا کنڈا رکھنے کا کام آتا ہے تو کہیں کپڑا سکھانے کے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

افروز عالم ساحل

سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے انتقال کے بعد ان کے نام کا کس طرح سے غلط استعمال ہو رہا ہے، اس کی مثال چھتیس گڑھ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ چھتیس گڑھ کی رمن سنگھ حکومت نے کہا ہے کہ ریاست کی 10 ہزار گرام پنچایتوں میں عوام کے مطالبہ کو دیکھتے ہوئے ’اٹل چوک‘ کی تعمیر کی جائے گی۔ ان چوراہوں پر اٹل جی کا مجسمہ بھی لگایا جائے گا۔ لیکن اٹل بہاری واجپئی کی زندگی میں ہی ان کے تئیں شکریہ ظاہر کرنے اور بہتر حکمرانی کی علامت کی شکل میں سال 05-2004 میں اس وقت کے پنچایت اور دیہی ترقی وزیر اجے چندراکر کے دور میں چھتیس گڑھ کی تقریباً سبھی گرام پنچایتوں میں اٹل چوک کی تعمیر کرائی جا چکی ہے۔ ہر چوک کی تعمیر پر 50 ہزار روپے خرچ کیے گئے تھے۔

2004-05 کے بعد 2008 میں اسمبلی انتخابات کے وقت پھر سے اعلان کیا گیا کہ ریاست کے 9820 گاؤوں میں ’اٹل چوک‘ قائم کیے جائیں گے جب کہ زیادہ تر پنچایتوں میں ’اٹل چوک‘ پہلے سے ہی قائم کیے جاچکے تھے۔ اس وقت کے پنچایت ڈائریکٹر پی پی شروٹی نے بتایا تھا کہ 8 ہزار اٹل چوک تقریباً بن کر تیار ہیں۔چھتیس گڑھ کے ان ’اٹل چوک‘ پر لگے ستونوں کی حقیقت یہ ہے کہ بننے کے کچھ سالوں کے بعد ہی زیادہ تر یادگاری ستونوں کی حالت خستہ ہو چکی ہے۔ کہیں اٹل چوک لوگوں کے لیے گوبر کا کنڈا رکھنے یا کپڑا سکھانے کے کام آتا ہے تو کہیں ان سے جانور باندھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر اٹل چوک ٹوٹے ہوئے ہیں۔ کچھ منہدم ہو گئے ہیں تو کچھ انہدام کے دہانے پر ہیں۔

کچھ مقامات پر سماج دشمن عناصر کے ذریعہ ان ستونوں کو توڑ کر پھینک دیے جانے کی بھی خبریں سامنے آ چکی ہیں۔ باوجود اس کے ’اٹل نشانی‘ کو بچانے کی جانب پنچایت کی کوئی توجہ نہیں ہے، جب کہ اس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری یہاں کی پنچایتوں کو دی گئی تھی۔ اس کے لیے حکومتی سطح پر ستون کی دیکھ ریکھ اور مرمتی کاموں کے لیے پنچایت کو سالانہ رقم بھی مہیا کرائی جاتی رہی ہے۔

مقامی صحافیوں کی بات پر یقین کیا جائے تو انتظامیہ کی جانب سے یہاں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے نام پر اسمارک تیار کرنے کا اعلان بھی کافی سال پہلے کیا جا چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں کئی ایسے مقامات بھی ہیں جہاں اعلان کے باوجود اب تک اسمارک تیار نہیں کیا جا سکا ہے۔ بستر کے مقامی صحافی پربھات سنگھ کا کہنا ہے کہ شاید حکومت اٹل جی کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ جیتے جی اعلان کے باوجود یہ کام نہیں کیا گیا جب کہ یہاں گزشتہ 15 سالوں سے بی جے پی کی حکومت ہے۔

حالانکہ یہاں کے قبائلی طبقہ کی یہ بھی شکایت ہے کہ اس حکومت نے ان کے اپنے قبائلی لیڈروں کو کبھی توجہ نہیں دی۔ ان کے نام پر کہیں کوئی چوک یا یادگاری ستون کی تعمیر نہیں کرائی گئی جب کہ یہاں جگدل پور اور نکلنار میں مہارانا پرتاپ سنگھ کے مجسمے ضرور نظر آتے ہیں جن کا چھتیس گڑھ کے ساتھ دور دور تک کوئی رشتہ نہیں ہے۔

درحقیقت چھتیس گڑھ میں اٹل چوک کی تعمیر کا اعلان اور پہلے سے خستہ حال اٹل یادگاری ستون ایک ایسی حقیقت کی طرح ہیں جس کی بنیاد ہی نمائش اور دکھاوے پر محمول ہے اور ان کی موت کے بعد نمائش پوری طرح ظاہر ہوگئی ہے۔ لیکن ان سب کے درمیان ایک سوال یہ بھی ہے کہ چھتیس گڑھ کے قبائلیوں کو بھلا ان سب سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اور یہاں کی قبائلی تہذیب کو بھی اس سے کیا فائدہ ہوگا!

قابل ذکر ہے کہ ہر سال 25 دسمبر یعنی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی پیدائش کے موقع پر بی جے پی کے ذریعہ چھتیس گڑھ میں ’سُشاسن دیوس‘ کی شکل میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر باقاعدہ ’اٹل چوک‘ کی صفائی کے لیے پروگرام کا انعقاد بھی ہوتا ہے جس کے نام پر کروڑوں گھوٹالوں کی کہانی یہاں کے مقامی میڈیا میں لگاتار آتی رہی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔