ٹی آر پی کے کھیل میں ناظرین سے دھوکہ... نواب علی اختر

ٹی وی چینلوں کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ پیسوں کی حوس میں عوامی مسائل کو بھی ہندو مسلم کے رنگ میں رنگتے ہوئے ملک کی فرقہ وارانہ فضاء کو متاثر کیا جا رہا ہے۔

تصویر بشکریہ ’دی کوئنٹ‘
تصویر بشکریہ ’دی کوئنٹ‘
user

نواب علی اختر

ہندوستانی جمہوریت میں ملکی صحافت کا کلیدی کردار ریا ہے تاہم موجودہ وقت میں یہی صحافت ٹی آر پی کے لئے ملک کو فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے پر آمادہ ہے۔غور کریں تو بی جے پی کے دور اقتدار میں صحافیوں کے لیے کام کرنے میں مشکلات بڑھی ہیں۔ اس دوران جہاں دیگر میڈیا ادارے آزادی صحافت پر قدغنوں کی شکایات کرتے دکھائی دیئے، وہیں نوآزمودہ ٹی وی چینل کے نام نہاد صحافی محض چند برسوں میں ہی ملکی میڈیا کے منظر نامے پر غالب آنے کے لیے لاشوں پر بھی کھیل جانے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے ہیں۔

ممبئی پولیس کی جانب سے کچھ ٹی وی چینلوں کے ذریعہ اپنی ٹی آرپی بڑھانے کے لیے کی جارہی غیر اخلاقی اور غیر قانونی سرگرمیوں کا پردہ فاش کیے جانے کے بعد سے بی جے پی کے بھونپو خود ساختہ صحافی بوکھلا اٹھے ہیں۔ ایسے لوگ بڑی بے شرمی سے پولیس کو ہی جھوٹا ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اپنے گناہوں کی پردہ پوشی کے لیے ٹی آر پی خرید نے والے چینل اب گلے پھاڑ پھاڑ کرعوام کی آواز بننے کی دہائی دیتے نظر آرہے ہیں مگر اس سے پہلے تک وہ لوگ حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بڑی دیدہ دلیری سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنا کر پیش کر رہے تھے۔


سوشانت معاملے میں جھوٹ کا پرچار کیا، خود کشی کو قتل بنا کر پیش کیا، ریا چکرورتی کو ملزم بنا کر کٹہرے میں کھڑا کر دیا، ساری فلمی دنیا کو سوشانت کا دشمن قرار دیا اور فلمی دنیا کو منشیات کا گڑھ ثابت کرنے کے لیے نہ جانے کہاں کہاں سے آدھے ادھورے اور فرضی ثبوت گڑھ کر پیش کیے، لیکن ایمس کی رپورٹ اور ریا چکرورتی کی ضمانت، بمبئی ہائی کورٹ کا ریا کو کسی ڈرگ سنڈیکیٹ کا حصہ ماننے سے انکار اور سی بی آئی کا سوشانت کے اکاونٹ میں کسی طرح کے خورد برد کے بارے میں ثبوت کا نہ پانا، یہ وہ حقائق ہیں جو بھونپو صحافیوں کے سارے دعووں کی قلعی کھول دیتے ہیں۔

ٹی آر پی کے لیے کھیلے گئے کھیل میں حد تو تب ہوگئی جب پالگھر معاملے میں کانگریس صدر سونیا گاندھی کا نام گھسیٹا گیا۔ ممبئی کے باندرہ علاقہ میں مہاجر مزدوروں کو تبلیغی جماعت سے جوڑنا فرقہ وارانہ بھی تھا اور مسلمانوں کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف بھی۔ دہلی فسادات اور حالیہ ہاتھرس گینگ ریپ معاملے میں بھی ٹی وی چینلوں کے جھوٹ سامنے آتے رہے ہیں۔ یہ چینل لوگوں کو جھوٹ پروستے رہے ہیں، خواہ ان کے جھوٹ سے غریب، پچھڑے اور اقلیتیں بشمول مسلم اقلیت نشانہ بنائی جائے۔ نشانہ بننے دو، ٹی آر پی بڑھے گی اور سیاسی آقا خوش ہوں گے اور دولت پانی کی طرح بہے گی۔


ٹی وی چینلوں کی ٹی آر پی کے تعلق سے دھوکہ دینے کا شاید ہی کسی کو تصور رہا ہوگا تاہم اب یہ بھی سامنے آنے لگا ہے کہ اس ملک میں لوگوں کو حقیقت سے واقف کروانے کا اہم ذریعہ سمجھے جانے والے ٹی وی نیوز چینل خود عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اپنی ٹی آر پی کے تعلق سے غیر درست دعوے کرتے ہوئے سینکڑوں بلکہ ہزاروں کروڑ روپئے کے اشتہارات دھوکہ سے بٹور رہے ہیں۔ اس دھوکہ دہی میں وہ نیوز چینل بھی شامل ہیں جو ملک میں پہلے ہی سے نفرت پھیلا نے میں سرفہرست رہے ہیں۔ حالت تو یہ ہوگئی ہے کہ پیسوں کی حوس میں عوامی مسائل کو بھی ہندو مسلم کے رنگ میں رنگتے ہوئے ملک کی فرقہ وارانہ فضاء کو متاثر کیا جا ریا ہے۔ عوام میں نفرت کے بیج بوئے جارہے ہیں اور عوام کو ایک دوسرے سے نفرت پر مجبور کیا جا رہا ہے۔

ملک میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتماد اور بھروسہ کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ اپنے مسائل کے لیے حکومتوں سے رجوع نہیں کر پا رہے ہیں۔ جن ٹی وی چینلوں کی اور میڈیا کی ذمہ داری حکومت کو عوام کے مسائل سے واقف کروانے کی ہے وہی عوام کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں۔ یہی ٹی وی چینل اگر اپنی ٹی آر پی کے لیے دھوکہ کرنے لگیں اور رشوت دینے لگیں اور فرضی اعداد و شمار کی بنیاد پر اشتہارات حاصل کرنے لگیں تو پھر عوام کو ان چینلوں کا بائیکاٹ کرنا ضروری ہوجائے گا۔ ایسے چینلوں کے خلاف پہلے تو نفرت اور منافرت پھیلانے کے الزام ہی میں کارروائی کرنے کی ضرورت تھی اور اب دھوکہ دینے کی پاداش میں بھی ان کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا چاہیے۔ ان کے خلاف مقدمہ کو حقیقی معنوں میں آگے بڑھاتے ہوئے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔


جو ٹی وی چینل نیوز کے نام پر نفرت پھیلاتے ہیں اور کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اصولوں اور انصاف و ایمانداری کی بات کرتے ہیں، اگر وہی دھوکہ کرنے لگتے ہیں تو پھر کسی پر بھروسہ کرنے میں عوم کو ہمیشہ ہی پس و پیش رہے گی۔ آج سارا ملک انہیں ٹی وی چینلوں کو دیکھتا ہے اور ان کے پروپیگنڈے کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب ان کی اصلی حقیقت کو ملک کے عوام کو جان لینا چاہیے اور ان کے پروپیگنڈے کا شکار ہوئے بغیر ان سے ان ہی کی حقیقت پر سوال کرنے کی ضرورت ہے۔ جن ٹی وی چینلوں کے اینکر آستینیں اونچی کرکے سوال کرتے نہیں تھکتے آج انہیں سے سارا ملک سوال کر رہا ہے کہ وہ اپنی حقیقت عوام کے سامنے پیش کریں اور اپنا دھوکہ باز چہرہ عوام کے سامنے پیش کرتے ہوئے معذرت کریں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔