مغربی اتر پردیش میں بی جے پی کے سامنے قلعہ بچانے کا چیلنج، کسان تحریک اثرانداز
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کسان تحریک کے بعد حالات بہت بدلے ہیں، 2013 کے پہلے مہندر سنگھ ٹکیت کے زمانے میں جو مسلم-جاٹ اتحاد دکھائی دیتا تھا، کچھ ویسے ہی حالات بن رہے ہیں۔
اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں مغربی یوپی کے 11 اضلاع کی 58 اسمبلی سیٹوں کے لیے 10 فروری کو ووٹنگ ہوگی۔ مغربی یوپی میں بی جے پی کی 2017 کی کارکردگی دیکھیں تو یہاں اسے 54 سیٹیں ملی تھیں۔ لیکن اس بار انتخاب میں چیلنجز الگ ہیں۔ بی جے پی کے سامنے اس بار قلعہ بچانے کا چیلنج رہے گا۔ دوسری طرف کسان تحریک سے ملے فائدہ کے بعد اپوزیشن پارٹیوں کی یہاں زمین مضبوط نظر آ رہی ہے۔
سال 2017 کے انتخاب میں مغربی یوپی میں میرٹھ کی 7 اسمبلی سیٹ میں سے 6 بی جے پی کے حصے میں گئی تھیں۔ جب کہ ایک سیٹ بی جے پی کے سابق ریاستی صدر لکشمی کانت واجپئی کو ہرانے والے رفیق احمد کی وجہ سے سماجوادی پارٹی کے حصے میں گئی تھی۔ مظفر نگر میں سبھی سیٹیں بی جے پی کے حصے میں گئی تھیں۔ شاملی کی تینوں سیٹوں میں سے دو پر بی جے پی اور ایک پر سماجوادی پارٹی کو جیت ملی تھی۔ اسی باغپت میں تین میں سے دو سیٹوں پر بی جے پی اور ایک پر آر ایل ڈی نے جیت درج کی تھی۔ حالانکہ بعد میں چھپرولی رکن اسمبلی نے بھی بی جے پی میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔
غازی آباد کی پانچوں سیٹ بی جے پی کے حصے میں چلی گئی تھیں۔ ہاپوڑ کی تین اسمبلی سیٹوں میں دو پر بی جے پی اور ایک پر بی ایس پی امیدوار نے جیت درج کی تھی۔ گوتم بدھ نگر کی تینوں اور بلند شہر کی ساتوں سیٹ بی جے پی کے حصے میں چلی گئی تھیں۔ علی گڑھ کی بھی سبھی سات سیٹوں پر بی جے پی جیت گئی تھی۔ آگرہ میں سبھی 9 اور متھرا کی 5 میں سے 4 سیٹیں بی جے پی کو جبکہ ایک سیٹ پر بی ایس پی نے کامیابی حاصل کی تھی۔
سال 2017 کے انتخاب میں سماجوادی پارٹی اور کانگریس نے آپس میں اتحاد کر کے انتخاب لڑا تھا۔ آر ایل ڈی اور بی ایس پی تنہا ہی انتخابی میدان میں تھے۔ لیکن اس بار انتخاب میں حالات بہت الگ ہیں۔ آر ایل ڈی اور سماجوادی پارٹی ایک ساتھ ہیں۔ بی ایس پی اور کانگریس تنہا دم پر لڑ رہے ہیں۔ اس بار مغرب کے ان اضلاع میں کسان تحریک کا اثر ہونے کی وجہ سے مقابلے سخت ہو گئے ہیں۔
میرٹھ کے پروین چودھری کہتے ہیں کہ یہاں پر نظامِ قانون بڑا ایشو رہا ہے۔ لوگوں کے مویشیوں کی چوری تھمی ہے۔ لوگوں کی بہن بیٹیوں کو لوگ پریشان کرتے تھے، وہ بھی کم ہوا ہے۔ یکطرفہ کارروائی نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے یہ حکومت واپس ہوگی۔ یہیں کے رہنے والے زبیر کا کہنا ہے کہ اس حکومت نے آپس میں لڑوانے کا کام کیا ہے۔ کسانوں کو بہت پریشانی سے گزرنا پڑا ہے۔ بہت پریشانی کے بعد ان لوگوں نے تحریک واپس لی ہے۔ اس کا اثر تو انتخاب میں ضرور دکھائی پڑے گا۔ مظفر نگر کے رہنے والے گریش کہتے ہیں کہ مغربی یوپی میں پہلے نظامِ قانون ایک بڑا ایشو ہوا کرتا تھا، اس سے کچھ سکون ملا ہے۔ بہت سے انتظامات اس حکومت میں ٹھیک ہوئے ہیں۔ اس کا فائدہ اس حکومت کو ملے گا۔
دوسری طرف میرٹھ کے سینئر سیاسی تجزیہ نگار سنیل تنیجا کہتے ہیں کہ مغربی یوپی میں ایشو سیکنڈری ہوتے ہیں۔ یہاں پولرائزیشن کا کھیل رہتا ہے۔ ابھی مقامی سطح کے جو عوامی نمائندے ہیں، ان سے لوگوں کی ناراضگی ہے۔ امیدوار بڑا فیکٹر ہے۔ ان کے بدلنے سے حالات مختلف ہو جائیں گے۔ ہاں، گزشتہ مرتبہ کی ملی سیٹوں کے مقابلے اس بار بی جے پی کو نقصان ضرور ہوگا۔ مغربی یوپی کے سیاسی ماہرین کی مانیں تو اس اسمبلی انتخاب میں سماجوادی پارٹی اور آر ایل ڈی کی دوستی کا بھی امتحان ہوگا۔ مظفر نگر فساد کے بعد آر ایل ڈی سے دور ہوا ووٹ بینک کسان تحریک کے بعد متحد مانا جا رہا ہے۔ دونوں پارٹیوں کے حامی مظفر نگر فساد کو بھول کر ساتھ تو آئے ہیں، لیکن بوتھ پر یہ کتنا کارگر ہوں گے یہ آنے والے وقت میں ہی صاف ہوگا۔
سینئر صحافی سمیراتمج مشر کا کہنا ہے کہ مغربی یوپی میں اگر 2017 کی بات کریں تو 2013 میں جو فارمولے بنے تھے، جاٹوں کی مسلمانوں سے جو علیحدگی ہوئی تھی، اس کا فائدہ بی جے پی کو ملا تھا۔ مسلم ووٹر کئی پارٹیوں میں بھی تقسیم ہو گئے تھے۔ کئی ذاتیں بھی بی جے پی کی حمایت میں تھیں۔ جاٹ، گوجر یہاں پر اچھا اثر ڈالتے ہیں۔ کسان تحریک کے بعد حالات بہت بدلے ہیں۔ جاٹ برادری اس تحریک کی قیادت کر رہی تھی۔ 2013 کے پہلے مہندر سنگھ ٹکیت کے زمانے میں جو مسلم-جاٹ اتحاد دکھائی دیتا تھا، ویسے ہی حالات بن رہے ہیں۔ حالانکہ دیگر کچھ ذاتیاں اور طبقات اب بھی بی جے پی کی حمایت میں نظر آ رہے ہیں۔ اگر جاٹ-مسلم اتحاد دکھائی دیا تو بی جے پی کو نقصان ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔