مرکز ’ملک سے غداری قانون‘ پر از سر نو غور کے لیے تیار، سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل
مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ حکومت ملک کے مفاد میں فیصلہ لے گی، عدالت کو قانون پر سماعت سے پہلے حکومت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
تعزیرات ہند کی دفعہ 124اے کی ویلیڈیٹی (درستگی) پر منگل کے روز ہونے والی سماعت سے پہلے مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کر دیا ہے۔ مرکز نے کہا ہے کہ ’’سیڈیشن لاء (ملک سے غداری قانون) کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حکومت برطانوی دور کے قوانین کی جکڑن دور کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس کے لیے لگاتار کوششیں ہو رہی ہیں۔ لیکن ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنا بھی ضروری ہے۔ سبھی حالات کو دیکھتے ہوئے فیصلہ لیا جائے گا۔ فی الحال سپریم کورٹ ملک سے غداری قانون کی ویلیڈیٹی پر سماعت نہ کرے۔‘‘
مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں یہ بھی کہا ہے کہ ملک ’آزادی کا امرت مہوتسو‘ منا رہا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ سطح پر خود وزیر اعظم ہر شہری کی آزادی اور حقوق انسانی کی حفاظت کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ حکومت اس بات کو بھی جانتی ہے کہ ملک سے بغاوت قانون کو لے کر ماہرین قانون اور دوسرے دانشوروں نے الگ الگ نظریات ظاہر کیے ہیں۔ حکومت ان سبھی نظریات کا احترام کرتی ہے، لیکن سپریم کورٹ 1962 میں کیدارناتھ سنگھ بنام بہار معاملے پر فیصلہ دیتے ہوئے قانون کو درست قرار دے چکا ہے۔
حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی سالمیت کو بنائے رکھنا کافی اہم ہے۔ بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ ضابطے کے مطابق منتخب حکومت کے تئیں تشدد بھڑکانے، عدم استحکام کی کوشش، ملک کی سالمیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچانے کے معاملوں میں نافذ ہونے کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے۔ ملک سے غداری قانون کا تجزیہ کرتے وقت اس پہلو پر بھی دھیان دینے کی ضرورت ہے۔
سپریم کورٹ سے فی الحال سماعت ملتوی رکھنے کی گزارش کرتے ہوئے حکومت نے کہا ہے کہ اس نے 15-2014 سے اب تک 1500 سے زیادہ پرانے قوانین کو ختم کیے ہیں۔ اس سے ایسے 25000 سے زیادہ معاملوں میں ان لوگوں کو مدد ملی ہے جنھیں ان قوانین کی بنیاد پر کوئی حکم دیا گیا تھا۔ غیر ضروری قانونی دفعات کا جائزہ لے کر انھیں جرم کے دائرے سے باہر کرنے کا عمل اب بھی جاری ہے۔ لیکن غداریٔ وطن قانون کا معاملہ ان سب سے علیحدہ ہے۔ اس کی حمایت اور مخالفت میں الگ الگ نظریات ہیں۔ حکومت ملک کے مفاد میں فیصلہ لے گی۔ عدالت کو قانون پر سماعت سے پہلے حکومت کے فیصلے کا انتظار کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔