مرکزی حکومت نے دہلی وقف بورڈ کی 123 ملکیتوں کو واپس لینے کے لیے نوٹس کیا جاری

مرکزی وزارت برائے شہری ترقی نے رواں سال فروری میں دو رکنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں سمیت وقف بورڈ کی 123 ملکیتوں کو اپنے قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

مرکز کی مودی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر دہلی وقف بورڈ کی 123 ملکیتوں کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے۔ مرکزی حکومت کی وزارت برائے شہری ترقی نے اس سلسلے میں نوٹس جاری کیا ہے۔ ان ملکیتوں میں دہلی کی جامع مسجد بھی شامل ہے۔ حالانکہ یہ جامع مسجد لال قلعہ کے پاس موجود تاریخی جامع مسجد نہیں ہے، بلکہ یہ ایک الگ مسجد ہے جو کہ سنٹرل دہلی میں موجود ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کی حکومت نے دہلی کی 123 اہم ملکیتوں کو دہلی وقف بورڈ کے حوالے کر دیا تھا، انہی ملکیتوں کو مرکزی حکومت نے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ مرکزی وزارت برائے شہری ترقی نے بدھ کے روز اس سلسلے میں نوٹس جاری کیا اور دہلی وقف بورڈ کی 123 ملکیتوں کو اپنے قبضے میں لینے کی بات کہی ہے۔ دراصل وزارت نے رواں سال فروری میں دو رکنی کمیٹی کی رپورٹ کی بنیاد پر مسجدوں، درگاہوں اور قبرستانوں سمیت وقف بورڈ کی 123 ملکیتوں کو اپنے قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا تھا۔


دراصل 8 فروری کو لکھے ایک خط میں ڈپٹی لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ افسر نے دہلی وقف بورڈ کو خط لکھ کر 123 وقف ملکیتوں سے متعلق سبھی معاملوں کی جانکاری دی تھی۔ مرکزی وزارت برائے اراضی و ترقی دفتر (ایل اینڈ ڈی او) نے کہا کہ غیر نوٹیفائیڈ وقف ملکیتوں کے ایشو پر جسٹس (سبکدوش) ایس پی گرگ کی صدارت والی دو رکنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اسے دہلی وقف سے کوئی نمائندگی یا اعتراض نہیں ملا ہے۔

اس معاملے سے متعلق ایک خط میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہے کہ دہلی وقف بورڈ کی فہرست بند ملکیتوں میں کوئی شراکت داری نہیں ہے، نہ ہی انھوں نے ملکیتوں میں کوئی دلچسپی دکھائی ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض یا دعویٰ داخل کیا ہے۔ اس لیے دہلی وقف بورڈ کو اس سے آزاد کرنے کا فیصلہ لیا گیا ہے۔ اس تعلق سے مئی میں دہلی ہائی کورٹ نے حکم دیا تھا کہ مرکزی حکومت ان 123 ملکیتوں کا فزیکل سروے کر سکتی ہے جن کے قبضے کا دعویٰ دہلی وقف بورڈ کر رہا ہے۔


بہرحال، مرکزی حکومت کے قدم پر عآپ رکن اسمبلی اور وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان نے پہلے ہی تلخ رد عمل ظاہر کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ اس فیصلے سے مسلم طبقہ کے درمیان فکر پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے ایک ٹوئٹ میں لکھا تھا ’’کچھ لوگ اس کے بارے میں جھوٹ پھیلا رہے ہیں۔ اس کا ثبوت آپ سبھی کے سامنے ہے۔ ہم وقف بورڈ کی ملکیتوں پر کسی کو قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔