خوشگوار عید شرپسندوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ!... نواب علی اختر
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے ذمہ داران بھگوان رام کے صبر و رواداری کے سبق کو بھول کر غصہ اور جارحیت کو فروغ دے رہے ہیں۔
تقریباً 8 سال قبل سن 2014 میں مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے برسر اقتدار آنے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ فرقہ وارانہ عناصر کو شہ اور کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت پچھلے ہفتے رام نومی کے جلوسوں کے نام پر ملک کی تقریباً 6 ریاستوں میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات ہیں۔ مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، گجرات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ ہندوؤں نے الزام لگایا کہ جب ان کا جلوس مسلم اکثریتی علاقوں سے گزرا تب ان پر پتھراؤ کیا گیا۔ مسلمانوں کا الزام تھا کہ کئی جگہوں پر جلوس کے شرکاء نے زبردستی مساجد کے میناروں پر ہندو مذہبی علامتیں اور زعفرانی جھنڈے لگائے۔ کئی ایسے ویڈیو بھی وائرل ہوئے، جن میں جلوس کے شرکاء ایک مخصوص کپڑا پہنے اقلیتی فرقہ کے تئیں بدزبانی اور گالی گلوج کر رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں : ’سپریم پہل‘ سے کٹ جائیں گے حکومت کے ہاتھ!... نواب علی اختر
اتنا ہی نہیں لاؤڈ اسپیکر پر اشتعال انگیز نعرے بلند کئے گئے۔ کرناٹک میں عثمانیہ مسجد کے باہر ”بنے گا مندر، توڑے گا مسجد“ جیسے گانے سنائی دیئے۔ ایک ہندو مہنت نے اتر پریش کے سیتا پور میں مسلم محلہ میں ایک مسجد کے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے مسلم خواتین کی عصمت دری کی دھمکی دی۔ غورطلب ہے کہ ہندوؤں کا ایک طبقہ رام نومی کی مناسبت سے 9 دن تک ورت ’روزہ‘ رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے روزے کے برعکس اس میں پانی، میوہ جات، جوس وغیرہ سے پیٹ بھرا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کچھ ہندو اس کی مناسبت سے گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ اس بار کئی جگہوں پر ڈنڈوں اور جھنڈوں کے بل پر گوشت کی دکانیں بند کروائی گئیں۔ عوام کے ذہنوں میں ایک خوف بٹھایا جا رہا ہے کہ بھگوان رام کے علاوہ اب ہندوستان میں کسی اور بھگوان کے لیے زمین تنگ ہو گئی ہے۔
صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ دہلی کے معروف تعلیمی ادارہ جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے طالب علموں کو بھی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے نشانہ بنایا۔ دائیں بازو کی اس تنظیم نے رام نومی کے دن یونیورسٹی کے ہاسٹل میں گوشت کھانے اور پکانے کے نام پر ہنگامہ کیا۔ اس تصادم میں طالبات سمیت دو درجن سے زائد طلباء زخمی ہوئے۔ کوئی بھی مذہب اس طرح کی انتہا پسندی نہیں سکھاتا ہے۔ رام کے نام پر گوشت کھانے پر لوگوں کو نشانہ بنانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ رام نومی کے موقع پر کئی علاقوں میں ہندو جانوروں کی قربانی کی رسم ادا کرتے ہیں اور ہر ہندو گوشت کھانے سے پرہیز نہیں کرتا۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ اور وشو ہندو پریشد کے ذمہ داران بھگوان رام کے صبر و رواداری کے سبق کو بھول کر غصہ اور جارحیت کو فروغ دے رہے ہیں۔
خاص طور پر ان معاملات پر وزیر اعظم نریندر مودی کی خاموشی بڑی معنی خیز ہے جس پر بہت سے دانشوروں نے نکتہ چینی کی ہے یہاں تک کہ وزیراعظم کو خط لکھ اپنا درد بیان کیا ہے مگر کوئی بھی حکمراں امن پسندوں کی فریاد سننے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی سرکردہ شخصیات نے مودی کے نام ایک کھلے خط میں لکھا تھا کہ وہ ملک میں نفرت سے بھری تباہی کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت بی جے پی 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی، سماج کو مذہبی خطوط پر تقسیم کرنے اور مذہبی منافرت کو فروغ دینے کا کام کرتی رہی ہے۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ہی دائیں بازو کے انتہا پسند گروپوں نے اقلیتوں پر اپنے حملے تیز کر دیئے ہیں اور وہ آئے دن مساجد اور مسلمانوں کی دیگر املاک کو نشانہ بنا کر فخر اور راشٹر بھکتی تصور کر رہے ہیں۔
ان حالات میں ہندوستان کا مسلمان حاشیے پر لگائے جانے کی کوششوں کے باوجود کسی بھی حالت میں اپنی امن پسندی، رواداری کا دامن چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ اس بات کو مسلمانوں نے اکثر ثابت بھی کیا ہے باوجود اس کے حکمرانوں کی سرپرستی حاصل کرنے والے مٹھی بھر شرپسند عناصر اپنی نفرت کی دکان چلانے کے لیے سماج کو آگ میں جھونکنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ مذکورہ خوفناک حالات اور فسادات کے دوران ہرطرف سے یہی خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ مسلمانوں کے سب سے بڑے تیوہار عید کی خوشیاں کافور کرنے کے لیے شرپسند عناصر کچھ بھی کرسکتے ہیں مگر ہمیشہ کی طرح مسلمانوں نے بڑی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے شرپسندوں کے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا اور بڑے صبرو تحمل کے ساتھ عبادت بھی کی اور ملک کے امن وامان کو بھی قائم رکھا۔
اس معاملے میں فرقہ وارانہ طور پر حساس صوبہ اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ پیش پیش رہا، جہاں مسلمانوں نے انتظامیہ کی ہدایات کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا تیوہار منایا۔ مسلمانوں کا یہ کردار شرپسندوں اور متعصبانہ ذہنیت کے حامل لوگوں کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ کہا جائے گا کیونکہ یہ لوگ مسلمانوں کو شدت پسند کے طور پر بدنام کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ کہیں بھی کوئی تشدد ہو، اس کے لیے براہ راست طور پر مسلمانوں کو ذمہ دار ٹھہرا دیا جاتا ہے اور پھر گرفتاریوں کا طویل سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس میں بہت سے بے قصور افراد کو کئی کئی سال ناکردہ گناہوں کی سزا سلاخوں کے پیچھے جھیلنا پڑتی ہے۔ بہرحال اس بارعید کے موقع پرمسلمانوں نے اپنے کردار سے انتہا پسندوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے جس کے لیے وہ قابل مبارکباد ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اُدے پور سے کانگریس کے نئے سفر کا آغاز... ظفر آغا
مسلمانوں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ مذہبی تہوار آپسی بھائی چارے ، پیارو محبت اور یگانگت کو پروان چڑھانے کا موقع فراہم کرتے ہیں مگر شر پسند عناصر ان تہواروں کو اپنے سیاسی مفاد اور نفرت کے دھندے کو بڑھانے کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں۔ اس لئے امن پسند افراد کو اپنی بستیوں اور محلوں میں امن کمیٹیوں اور دیگر برادران وطن کے ساتھ میٹنگیں کرکے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کسی بھی شرپسند عناصر کو شر پھیلانے کا کوئی موقع نہیں دیا جائے گا، اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو سب مل کر اس کے خلاف انتظامیہ سے شکایت کریں، مقامی انتظامیہ کے ساتھ بھی نشست کریں اور اس میں اس بات کا تیقن حاصل کرنے کی کوشش کریں کہ کسی بھی صورت میں لاء اینڈ آرڈر کو متاثر نہیں ہونے دیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔