سی بی آئی پنجرے کا طوطا نہیں گِدھ ہے!
عدالت نے سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن یعنی سی بی آئی کو پنجرے کا طوطا کہا تھا۔ لیکن اب تو محسوس ہوتا ہے جیسے یہ پنجرے کا طوطا نہیں بلکہ گِدھ ہے۔
محترم وزیر اعظم، کیا 56 انچ کا سینہ ٹھوک کر یہ کہنا کہ ’نہ کھاؤں گا نہ کھانے دوں گا‘ اور ’بدعنوانی بالکل بھی برداشت نہیں کروں گا‘ بھی جملہ بن کررہ گیا۔ عدالت نے تو سی بی آئی کو صرف پنجرے کا طوطا ہی کہا تھا لیکن اب تو طوطے گِدھ بن گئے ہیں۔ خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس وِنگ یعنی ’را‘ اور سی بی آئی بھی بدعنوان ہو جائے تو ملک کی سیکورٹی کو تو خطرہ ہوگا ہی۔ بڑے جرائم پیشوں کے خلاف کارروائی کی بات تو بہت دور ہے، غیر جانبدارانہ، آزادانہ اور شفاف جانچ کی بات بھی تاریخ کی بات بن جائے گی۔
سی بی آئی میں بدعنوانی کا بول بالا ہے۔ اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ سی بی آئی نے اپنے ہی اسپیشل ڈائریکٹر کے خلاف کروڑوں روپے رشوت لینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔ دوسری جانب اسپیشل ڈائریکٹر نے سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما پر ہی کروڑوں روپے کی رشوت لینے کا الزام عائد کیا ہے۔ اتنے بڑے بڑے افسروں کے ذریعہ ایک دوسرے پر بدعنوانی کے الزام لگانے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نچلی سطح پر بدعنوانی کا کیا عالم ہوگا۔ سی بی آئی کے دو سابق ڈائریکٹروں کے خلاف بھی بدعنوانی، حوالہ، کالے دھن کو سفید کرنے کے الزام میں سی بی آئی اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں معاملے درج ہیں۔ حیران کرنے والی بات یہ ہے کہ ان افسروں نے ایسے معاملوں میں بدعنوانی کی جن کی جانچ پر سپریم کورٹ کی بھی نظر ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان بے لگام افسروں کو سپریم کورٹ کا خوف بھی بالکل نہیں ہے۔ اس سے یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایسے اہم معاملوں میں یہ بدعنوانی کر سکتے ہیں تو عام معاملوں میں تو بدعنوانی کا اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔
سی بی آئی کی اس حالت کے لیے سب سے زیادہ ذمہ دار سیاسی لیڈران اور آئی پی ایس افسران ہیں۔ لیڈروں کے ذریعہ سی بی آئی کا استعمال اپنے مخالفین کے خلاف کرنے کے الزامات تو ہمیشہ سے لگتے رہے ہیں۔ عدالت نے سی بی آئی کو پنجرے کا طوطا کہا تھا۔ لیکن اب تو لگتا ہے کہ طوطا نہیں یہ گِدھ ہیں۔ کانگریس ہو یا بی جے پی، اپنے خاص لوگوں کو ہی سی بی آئی، انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، دہلی پولس کمشنر کے عہدہ پر تعینات کرتے ہیں اور ان کا استعمال اقتدار کے لٹھیت کی شکل میں کرتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ اگر ایسے آئی پی ایس جب لیڈر کے لیے کام کریں گے تو اپنے نجی فائدے کے لیے بھی اپنے عہدہ کا غلط استعمال یعنی بدعنوانی کرنا فطری ہے۔ لیڈر اور آئی پی ایس کی سانٹھ گانٹھ کے سبب ہی اہم معاملوں کی جانچ کا بھٹہ بٹھا کر مجرمین کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ قانون یا آئین کی جگہ لیڈروں کے اشارے پر کام کرنے والے کئی آئی پی ایس نہ صرف سروس کے دوران اہم عہدہ پاتے ہیں بلکہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی یو پی ایس سی رکنیت یا گورنر وغیرہ تک بن جاتے ہیں۔
ایمانداری، سینئرٹی اور اہلیت کو درکنار کر جب تک لیڈر اپنے چہیتوں کو اہم عہدوں پر تعینات کرتے رہیں گے تو ایسے ہی بدعنوانی کا بول بالا رہے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سی بی آئی نے اپنے جن سابق ڈائریکٹروں کے خلاف گزشتہ سال معاملہ درج کیا تھا ان کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی گرفتاری کرنے کا امکان ہے، کیونکہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔
دوسری طرف کسی معصوم کو پھنسانے میں سی بی آئی بالکل بھی تاخیر نہیں کرتی۔ جیسے آروشی ہیمراج قتل واقعہ میں سی بی آئی کے آئی پی ایس افسر ارون کمار نے تینوں ملازموں کو گرفتار کر دعویٰ کیا تھا کہ نارکو ٹیسٹ میں قتل کرنا قبول کیا ہے لیکن بعد میں وہ ملازم بے قصور نکلے۔
کئی معاملوں میں سی بی آئی کا کردار مشتبہ ہے۔ کیا سی بی آئی ڈائریکٹر آلوک ورما بتا سکتے ہیں کہ نوٹ بندی میں ایک بینک کے ذریعہ کیے گئے گھوٹالے کی جانچ سے منسلک ایک آئی پی ایس افسر کو اس معاملے کی جانچ سے اچانک ہٹا کر واپس دہلی پولس میں کیوں بھیجا گیا تھا؟ اگر اس آئی پی ایس کا کردار صحیح نہیں تھا تو اس کے خلاف کارروائی کرنے کی جگہ اسے صرف ہٹا کر بچایا کیوں گیا؟
پولس ذرائع کے مطابق جوائنٹ پولس کمشنر کے اس افسر کو امولیہ پٹنایک اہم عہدہ نہیں دینا چاہتے تھے لیکن یہ افسر بھی اس وزیر داخلہ کا رحم و کرم حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا جس کے رحم و کرم سے امولیہ پٹنایک بھی سینئرٹی کو درکنار کر پولس کمشنر بنائے گئے تھے۔
سی بی آئی نے میڈیکل کالج والوں سے دو کروڑ روپے رشوت لیتے ہوئے باپ بیٹے کو گرفتار کیا تھا لیکن یہ رقم جس ہیمنت شرما کو دی جانی تھی اسے سی بی آئی نے گرفتار نہیں کیا۔ ہیمنت شرما کو اس معاملے کے اجاگر ہونے کے بعد رجت شرما نے خود کو ایماندار دکھانے کے لیے انڈیا ٹی وی سے نکال دیا۔ رجت شرما ایماندار ہوتا تو ہیمنت شرما کی کارستانی اور اسے نکالنے کے بارے میں اپنے چینل میں خبر دکھاتا اور اپنے دوست مودی سے کہتا کہ ہیمنت کو بخشا نہیں جانا چاہیے۔
سی بی آئی نے این ڈی ٹی وی کے خلاف معاملہ درج کیا ہے لیکن اب تک پرنے رائے کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ اس طرح انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں بھی این ڈی ٹی وی کے خلاف معاملہ درج ہے۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ بھی پرنے رائے کو پکڑے گی یا نہیں معلوم نہیں، کیونکہ کئی سال سے صرف نوٹس بھیجنے کی روایت نبھا رہی ہے۔
وزیر اعظم جی اگر آپ کی نیت صحیح ہے تو میڈیا کے ’آقاؤں‘ کو گرفتار کروائیں ورنہ ایسا لگے گا کہ اپنے فائدے کے لیے میڈیا پر دباؤ بنانے کے لیے یہ ہتھکنڈے اپنائے جا رہے ہیں۔ ان معاملوں سے جانچ ایجنسیوں کے کردار پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں بھی راجیشور سنگھ اور سیمانچل داش جیسے افسر ہیں جو تنازعات میں رہے ہیں۔ راجیشور سنگھ کے دوبئی میں مشتبہ اشخاص سے رابطہ کے بارے میں را نے سپریم کورٹ میں رپورٹ دی تھی۔ سیمانچل داش ارون جیٹلی کا پرسنل سکریٹری تھا اور اس وقت ٹائمز آف انڈیا کے ایڈیٹر دیواکر استھانا کے ساتھ مل کر آئی آر ایس افسر انوپم سمن کو لندن میں تعینات کرانے کی کوشش میں داش کا نام بھی اجاگر ہوا تھا۔ آئی آر ایس افسر سیمانچل داش کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ میں تعینات کرنے کے لیے پرنسپل اسپیشل ڈائریکٹر کا نیا عہدہ بنایا گیا۔
جانچ ایجنسی کے سینئر افسر اگر کسی مشتبہ شخص یا حوالہ کاروباری سے بیرون ملک میں فون پر لگاتار رابطہ کریں تو بھی اس کے دفاع میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ جانچ کے سلسلے میں یا انفارمیشن حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا جا رہا تھا۔ یہ دلیل تو اب راکیش استھانہ بھی اپنے بچاؤ میں دے سکتا ہے۔ لیکن دوسری جانب کسی عام آدمی کا رابطہ یا نمبر بھی کسی مشتبہ یا ملزم کے پاس مل جائے تو اسے یہ ملزم تک مان کر جانچ ایجنسیوں کے ذریعہ پریشان کرتے ہیں اور وصولی تک کی جاتی ہے، جیسا کہ ستیش سنا کے ساتھ بھی ہوا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔