’کیا قرض میں ڈوبی ریاستوں میں مفت اسکیم پر عمل کو روکا نہیں جا سکتا؟‘ سپریم کورٹ کا مالیاتی کمیشن سے سوال
بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا ہے، ان کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے اعلانات رشوت کے مترادف ہے۔
بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کر مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مالیاتی کمیشن سے معلوم کرے کہ پہلے سے قرض میں ڈوبی ریاستوں میں مفت اسکیموں پر عمل کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس کی صدارت والی بنچ نے اس سلسلے میں آئندہ سماعت 3 اگست کو کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ انتخابات سے قبل سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ مفت اسکیموں کا اعلان ایک طرح سے ووٹر کو رشوت دینے جیسی بات ہے۔ یہ نہ صرف انتخاب میں امیدواروں کو غیر برابری والی حالت میں کھڑا کر دیتی ہے بلکہ انتخاب کے بعد سرکاری خزانے پر بھی غیر ضروری بوجھ ڈالتی ہے۔ اس عرضی پر سپریم کورٹ نے 25 جنوری کو الیکشن کمیشن کے نام نوٹس جاری کیا تھا۔ جواب میں انتخابی کمیشن نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ وہ مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رَد نہیں کر سکتا۔ کمیشن نے کہا کہ ایسا کرنے کا اختیار اسے نہیں ہے۔ کسی حکومت کی پالیسی کیا ہوگی، اسے انتخابی کمیشن کنٹرول نہیں کر سکتا۔ اگر ایسے اعلانات کو پورا کرنے سے کسی ریاست کی معاشی حالت بگڑتی ہے تو اس پر ریاستی عوام کا فیصلہ لینا ہی مناسب ہے۔
اشونی اپادھیائے نے اس تعلق سے دلیل دی کہ پارٹیوں کو منظوری دینا اور انتخابی نشان الاٹ کرنا انتخابی کمیشن کا کام ہے۔ وہ اس سے جڑے قوانین میں تبدیلی کر یقینی کر بنا سکتا ہے کہ کم از کم منظور شدہ پارٹیوں کی طرف سے ایسے اعلانات نہ ہوں۔ اس معاملے کی سماعت کر رہی بنچ کے صدر چیف جسٹس این وی رمنا نے بھی انتخابی کمیشن کے رویے پر حیرانی ظاہر کی۔ انھوں نے کہا کہ یہ ایک بہت سنگین موضوع ہے، کمیشن کو اس طرح اپنے ہاتھ کھڑے نہیں کرنا چاہیے۔ انتخابی کمیشن کی طرف سے پیش وکیل نے کہا کہ قانون بنانا حکومت اور پارلیمنٹ کے حلقہ اختیار میں ہے۔ کمیشن اپنی طرف سے ایسا نہیں کر سکتا۔ پھر عدالت نے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج سے سوال کیا۔ نٹراج نے کہا کہ کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سن کر انتخابی کمیشن کے موجودہ قوانین کے حساب سے کام کرنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے انتخابی کمیشن اور مرکزی حکومت کے اس ٹال مٹول بھرے رویے پر ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ باتیں مرکز حلف نامے میں لکھ کر دے دے کہ اس معاملے میں وہ کچھ نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
اس معاملے میں چیف جسٹس نے عدالت میں ایک دوسرے معاملے کی سماعت کے لیے موجود سینئر وکیل کپل سبل سے سوال کیا کہ ’’آپ سینئر رکن پارلیمنٹ بھی ہیں۔ آپ بتائیے کہ کیا حل ہو سکتا ہے؟‘‘ جواب میں سبل نے کہا کہ ’’حکومت کی طرف سے نیا قانون بنانے سے سیاسی تنازعہ ہوگا۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے مالیاتی کمیشن مناسب اسٹیج ہے۔ مالیاتی کمیشن ہر ریاست کو خرچ کے لیے پیسے الاٹ کرتا ہے۔ وہ ریاست سے بقایہ قرض کا حساب لیتے ہوئے الاٹمنٹ کر سکتا ہے۔ اس سے اس سنگین مسئلہ کے حل میں مدد ملے گی۔‘‘ عدالت نے اس جواب سے اتفاق ظاہر کیا اور ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سے کہا کہ وہ مالیاتی کمیشن سے اس سلسلے میں مشورہ طلب کریں اور عدالت کو اس سے مطلع کرائیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔