کیا بال ٹھاکرے کا ’ہندوتوا‘ اب بھی زندہ ہے!
ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا ہےکہ ایم ایل اے کی اس بغاوت کے پیچھے بڑا لالچ ہے، لیکن وہ اپنے والد بال ٹھاکرے کے ہندوتوا سے نہیں ہٹیں گے۔
اس ملک میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک مراٹھی میگزین سے شروع ہو کر ممبئی کے ایک انگریزی اخبار میں کارٹون بنانے والا شخص نہ صرف مہاراشٹر بلکہ ملک کی سیاست کو اس طرح بدل دے گا کہ اس کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی پورا مہاراشٹر انہیں یاد کر رہا ہے۔بال ٹھاکرے جنہوں نے 56 سال قبل شیو سینا کی بنیاد رکھ کر ملک میں 'ہندوتوا' کو ابھارا تھا ان کے بیٹے ادھو تھاکرے نے بدھ کی رات استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنے استعفے سےیہ تسلیم کر لیا ہے کہ اسمبلی میں فلور ٹیسٹ کا سامنا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ حکومت کی شکست طے ہے۔
شیو سینا کے باغی دھڑے کے رہنما ایکناتھ شندے نے ادھو ٹھاکرے کے خلاف بغاوت کر دی اور الزام لگایا کہ ادھو نے بالاصاحب ٹھاکرے کے ہندوتو سے انحراف کر دیا ہے۔ شاید اس کا جواب دینے کے لیے، ادھو نے بطور وزیر اعلیٰ اپنی آخری کابینہ کی میٹنگ میں تین انتہائی اہم فیصلے لیے، جن کو بدلنا آنے والی نئی حکومت کے لیے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوگا۔ ادھو ٹھاکرے نے مہاراشٹر کے لوگوں کو یہ پیغام دیا ہےکہ ایم ایل اے کی اس بغاوت کے پیچھے بڑا لالچ ہے، لیکن وہ اپنے والد بال ٹھاکرے کے ہندوتوا سے نہیں ہٹیں گے ۔
ادھو ٹھاکرے نے اپنی حکومت کی آخری کابینہ میٹنگ میں شہروں کے نام تبدیل کرنے کا جو فیصلہ لیا ہے وہ دراصل یہ ظاہر کرنے کی کوشش ہے کہ انہوں نے نہ تو ہندوتوا چھوڑا ہے اور نہ ہی بال ٹھاکرے کے نظریہ کو ۔ وزیر اعلی کے طور پر ادھو ٹھاکرے کی آخری کابینہ نے اورنگ آباد شہر کا نام ’سمبھاجی نگر‘ رکھنے کی منظوری دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عثمان آباد شہر کا نام بدل کر 'دھراشیو' کر دیا گیا ہے۔ نوی ممبئی بین الاقوامی ہوائی اڈے کا نام آنجہانی ڈی بی پاٹل بین الاقوامی ہوائی اڈہ رکھ دیا گیا ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انتظامی فیصلے ہیں، جنہیں ان کی کابینہ نے آخری وقت میں منظور کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے باغی دھڑے کے لیڈر ایکناتھ شندے سمیت ریاست کے عوام کو ایک پیغام دیا ہے۔ کہ ہندوتوا کے معاملے کو چھوڑ کر ان کے بارے میں جو کنفیوژن پھیلایاجا رہا تھا ، اب اس کی حقیقت سامنے ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہندوتوا سیاست کا جوا ادھو نے اپنی کرسی چھوڑنے سے پہلے کھیل کھیلا ہے، اس نے اگلی حکومت کے لیے پریشانی پیدا کر دی ہے۔ کیونکہ اگر آنے والی نئی حکومت ان تینوں نئے ناموں کو قبول نہیں کرتی ہے تو دونوں شہروں سمیت نئی ممبئی میں لوگوں کے ہنگامے کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اب بی جے پی حکومت چاہے تو بھی ان فیصلوں کو تبدیل کرنے کی ہمت نہیں کر سکتی، کیونکہ ایسا کرنے سے مہاراشٹر کے لوگوں میں اس کی شبیہ 'ہندوتوا مخالف' بن جائے گی، جو وہ کبھی نہیں چاہے گی۔
جو لوگ مراٹھا سیاست کی نبض کو سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ آٹو رکشا چلانے والےایکناتھشندے کو بال ٹھاکرے سے سب سے پہلے شیوسینا کے سینئر لیڈر آنند راؤ دیگھے نے تھانے میں متعارف کرایا تھا۔ بال ٹھاکرے کی خاصیت یہ تھی کہ وہ جس پر بھی ہاتھ ڈالتے تھے پوری طرح مطمئن ہو کر اسے اپنے خاندان کا فرد ماننے میں دیر نہیں لگاتے تھے اور گھر والوں کو یہ پیغام بھی دیتے تھے کہ وہ ہمارا سب سے اہم شخص ہے اور ایک وفادار شیوسینک۔ تب بال ٹھاکرے نے پارٹی کے خلاف بغاوت کرنے والے ایکناتھ شندے پر برابر کا اعتماد ظاہر کرتے ہوئے انہیں تھانے میونسپلٹی میں شیوسینا کا کونسلر بنا کر اپنا سیاسی سفر شروع کیا تھا۔
مہاراشٹر کی سیاست میں اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ ڈھائی سال پہلے جب مہا وکاس اگھاڑی کی حکومت بننے کے حالات آئے تو ادھو ٹھاکرے اور ان کی اہلیہ رشمی ٹھاکرے نے وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے صرف ایک نام تجویز کیا تھا اور وہ نام ایکناتھ شندے کا تھا۔ لیکن پچھلی چھ دہائیوں میں سیاست کی بساط پرشے مات کا کھیل کھیلتے ہوئے کئی کھیل جیتنے والے شرد پوار نے شندے کے نام کو ٹھکرا دیا تھا اور ادھو کو مشورہ دیا تھا کہ ’’تم سے بہتر وزیر اعلیٰ اور کون ثابت ہو سکتا ہے؟ " تب تک ادھو نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے، لیکن کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کو پلیٹ میں سجاکر اقتدار سونپے تو کیا آپ اسے ٹھکرا سکتے ہیں؟ یہ شیو سینا کے لیے سب سے بڑا موڑ ثابت ہوا۔
ہر سال وجے دشمی یعنی دسہرہ کے موقع پر بال ٹھاکرے اپنے شیو سینکوں سے خطاب کرنے ممبئی کے شیواجی پارک جاتے تھے۔ لیکن زندگی کے آخری سال میں ان کی صحت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے ادھو ٹھاکرے کو پارٹی کا ورکنگ صدر بنایا تھا۔ پھر انہوں نے اپنے شیو سینکوں کو ایک ویڈیو ریکارڈ شدہ پیغام بھیجا، جسے شیواجی پارک میں جمع ہونے والے ہزاروں لوگوں نے بڑی اسکرینوں پر دیکھا اور سنا۔ پھر انہوں نے اپنے حامیوں سے ایک بہت ہی دل کو چھو لینے والی اپیل کی اور کہا کہ "آپ میرے بیٹے اور شیوسینا کے ورکنگ صدر ادھو ٹھاکرے کو وہی پیار اور احترام دیتے رہیں گے جو آپ نے مجھے دیا ہے ۔"
کہا جاتا ہے کہ اس بیان کو سننے کے بعد سب سے پہلے رونےوالے اور ادھو ٹھاکرے کو گلے لگانے والےایکناتھ شندے تھے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ یہ جمہوریت کی فتح ہے یا ایک وفادار کی غداری۔ (بشکریہ ای بی پی نیوز پورٹل)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔