کیبل کار ٹرالی حادثہ: 11 زندگیاں تھیں خطرے میں، خوفناک ماحول میں رسّی سے ہوا ریسکیو

کیبل کار ٹرالی میں سوار ایک سیاح نے اس پورے واقعہ کی ویڈیو بنائی جس میں گھبرائی ہوئی ایک خاتون سیاح کہتی نظر آ رہی ہے کہ ’’سر، میں رسی سے نہیں اتر سکتی ہوں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘

ویڈیو گریب
ویڈیو گریب
user

قومی آواز بیورو

ہماچل پردیش کے پروانو میں کیبل کار ٹرالی (روپ وے) درمیان میں پھنس جانے کی وجہ سے اس میں سوار 8 نہیں، بلکہ 11 سیاحوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی تھیں۔ سبھی کو بہ حفاظت رسّی کے سہارے محفوظ مقام پر اتار لیا گیا ہے اور انھوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ لیکن ریسکیو کا یہ عمل اتنا آسان نہیں تھا، کوئی بھی سیاح کیبل کار ٹرالی سے رسّی سے نیچے اترنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ مرد و خواتین سبھی ڈرے ہوئے تھے اور رسی کی مدد سے نیچے اترنے سے انکار کر دیا تھا۔ ریسکیو ٹیم نے بڑی مشکل سے انھیں سمجھایا اور پھر ایک ایک کر سب کو محفوظ مقام تک پہنچا دیا۔

کیبل کار ٹرالی میں سوار ایک سیاح نے اس پورے واقعہ کی ویڈیو بنائی جو کچھ نیوز پورٹل پر اَپ لوڈ کی گئی ہے۔ ایک ویڈیو میں گھبرائی ہوئی ایک خاتون سیاح کہتی نظر آ رہی ہے کہ ’’سر، میں رسی سے نہیں اتر سکتی ہوں۔ مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ ویڈیو اس وقت کا ہے جب ریسکیو کے لیے کچھ لوگ کیبل کار ٹرالی میں پہنچے تھے اور سیاحوں سے کہا تھا کہ صرف یہی ایک راستہ نکلنے کا ہے کہ رسّی کے سہارے نیچے اترا جائے۔ لیکن کوئی بھی سیاح اس کے لیے راضی نظر نہیں آ رہا تھا۔ ویڈیو میں ایک شخص کہتا ہوا سنائی دے رہا ہے ’’یہ سر ہمیں ریسکیو کرنے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس رسّی سے ریسکیو کرنے کا ہی ایک راستہ ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے دوسرے مسافروں سے پوچھا کہ کیا وہ رسی سے نیچے اتر پائیں گے۔ اس پر باری باری سبھی نے انکار کرتے ہوئے اپنی پریشانی بتائی۔ ایک شخص نے کہا کہ وہ رسی سے نہیں اتر پائیں گے کیونکہ انھیں نیچے دیکھتے ہی ڈر لگ رہا ہے۔


اس مشکل حالات میں ریسکیو کی ٹیم نے سبھی کو سمجھایا اور انھیں یقین دلایا کہ کسی کو کچھ نہیں ہوگا۔ پروانو کے پولیس ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پرنو چوہان نے بتایا کہ بہت سمجھانے کے بعد کچھ گھنٹوں کے اندر ہی سبھی سیاح کو بہ حفاظت وہاں سے نکال لیا گیا۔ این ڈی آر ایف افسر بلجندر سنگھ کا اس تعلق سے کہنا ہے کہ ’’ریسکیو آپریشن میں سب سے بڑی پریشانی پھنسے ہوئے ٹورسٹوں کو منانے میں آئی۔ وہ بڑی مشکل سے ہماری بات پر راضی ہوئے کہ ہم انھیں حفاظت کے ساتھ نیچے اتار لیں گے۔ پورے ریسکیو آپریشن میں تقریباً تین سے چار گھنٹے کا وقت لگا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔