میوات: موب لنچنگ کے ذریعہ دودھ کا کاروبار تباہ کرنے کی سازش

مسلم اکثرتی خطہ میوات سے 4 لاکھ لیٹر دودھ یومیہ سپلائی کیا جاتا ہے، زیادہ ترخاندانوں کا انحصار اسی کاروبار پرہے۔ سینچائی کے ذرائع نہ ہونے کے سبب یہاں کےلوگ بھینس کے مقابلے گائے پالنا آسان سمجھتے ہیں۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

یونس علوی

میوات کےگائے پالنے والے مسلمانوں پر گئورکشوں کا حملہ اب معمول کی بات بن چکا ہے۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران پہلو، عمر محمد اور اب اکبر خان سمیت 5 سے زیادہ افراد گائے تحفظ کے نام پر موب لنچنگ کے ذریعہ قتل کئے جا چکے ہیں۔ علاقہ کے لوگ بارہا یہ بات کہتے ہیں کہ اب وہ گائے نہیں پالیں گے لیکن پیٹ اور روزگار کی مجبوری کی وجہ سے وہ اپنے اس عزم پر قائم نہیں رہ پاتے۔

خطہ میوات سے تقریباً 4 لاکھ لیٹر دودھ گروگرام اور دہلی سمیت دیگر شہروں میں سپلائی کیا جاتا ہے اور اسی کاروبار سے میوات کے تقریباً ڈیڑھ لاکھ خاندان براہ راست منسلک ہیں۔ پانچ روز قبل کولگاؤں کے رہائشی اکبر عرف رکبر خان کو الور میں قتل کیا گیا اس کے بعد یہ سوال شدت سے پوچھا جانے لگا ہے کہ کیا میوات سے مسلم خاندانوں کے دودھ کاروبار کو ختم کرنے کی کوئی سازش چل رہی ہے!۔

واضح رہے کہ اکبر خان کے قتل کی خبریں ابھی لوگوں کے ذہنوں میں باقی تھیں کہ گائے کے نام پر ہجومی تشدد کا ایک اور واقعہ پیش آیا ہے۔ مبینہ 8-10 گئورکشکوں نے ضلع نوح کے تاوڑو علاقہ میں ڈرائیور ہاشم خان کو اس وقت زد و کوب کیا جب وہ گاڑی میں راشن کا سامان لے کر جا رہا تھا ۔ المیہ یہ ہے کہ ہاشم کی گاڑی میں کوئی گائے بھی نہیں تھی ۔

ڈرائیور ہاشم خان
ڈرائیور ہاشم خان

گائے کے نام پر آئے دن ہو رہے اس تشدد کے سبب میوات کے دودھئے اور دودھ کی ڈیری چلانے والےدہشت میں ہیں۔ ایسے واقعات سے ان کے کاروبار پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔

میوات کے باشندگان سالہا سال سے دودھ کا کاروبار کرتے چلے آ رہے ہیں۔ پہلے کچھ لوگ پہاڑوں میں کانکنی کرکے بھی گزر بسر کیا کرتے تھے لیکن جب کانکنی پر پابندی عائد کی گئی تو ان کا واحد کاروبار دودھ فروشی کا رہ گیا ۔ علاقہ میں سینچائی کے ذرائع موجود نہیں ہیں، زیر زمین پانی کھارا ہے، بارش بھی کم ہوتی ہے، ہر سال سوکھے کی مار پڑتی ہے اور علاقہ میں صنعتی سرگرمی نہ کے برابر ہے۔ نتیجتاً کاروبار نہ ہونے کے سبب زیادہ تر لوگ مویشی پروری کر کے ہی اپنے خاندان کی گزر بسر کر رہے ہیں۔

اراولی پہاڑ کے نشیبی علاقے میں رہائش پذیر زیادہ تر لوگ دودھ کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ جہاں پہاڑی علاقہ نہیں ہے وہاں کے لوگ بھینسیں بھی پالتے ہیں، لیکن گایوں کی نسبت بھینس پالنا مہنگا پڑتا ہے۔ بھینسوں کو جہاں گھر پر ہی چارہ دینا پڑتا ہے وہیں گایوں کا دودھ نکالنے کے بعد اراولی کی پہاڑیوں پر چرنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ جس سے چارے کے پیسے بچ جاتے ہیں۔ جبکہ گائے کا دودھ بھینس کے دودھ سے سستہ ہوتا ہے، پھر بھی میوات کے باشندگان گائے پالنے کو ترجیح دینے کے ساتھ فائدہ مند مانتے ہیں۔

ایک اندازہ کے مطابق میوات کے مویشی پروروں کے پاس تقریباً 50 ہزار گائیں اور 5 لاکھ بھینسیں موجود ہیں۔ مہلوک اکبر کے کولگاؤں میں ہی مویشی پروروں کے پاس تقریباً ایک ہزار گائیں موجود ہیں۔ اراولی پہاڑی سلسلہ سے ملحق میوات کے گاؤں ڈھانا، ببل ہیڑی، مہوں، جھمراوٹ، گھاگس، کرہیڑا، کوٹلا، میولی، پاٹ کھوری، مالب، آکیڑا، کنسالی وغیرہ سینکڑوں گاؤں میں لوگ گائے پالتے ہیں۔اسی سبب تین سال پہلے ہریانہ کے وزیر اعلی منوہر لال کھٹر یہاں کے 80 گائے پروروں کو اعزاز سے بھی نواز چکے ہیں۔

پنہانا واقع راہل ڈیری کے مالک بلراج کا کہنا ہے کہ میوات میں تقریباً 6 دودھ کی ڈیریاں ہیں، جن میں ایک سرکاری ڈیری بھی ہے۔ اس کے علاوہ فیروز پور جھرکا میں ایک ملک پاؤڈر بنانے کا پلانٹ لگا ہوا ہے۔ یہاں سے عام دنوں میں لاکھوں لیٹر دودھ باہر بھیجا جاتا ہے جبکہ سردیوں میں دودھ کی مانگ بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بلراج کا کہنا ہے کہ میوات کی 80 فیصد آبادی یعنی کہ ڈیڑھ لاکھ خاندان براہ راست یا بالواسطہ دودھ کے کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں۔

میوات کے مویشی پرور ڈیری، سوسائٹیوں اور دودھیوں کے ذریعہ دودھ ،گھی کا کاروبار کرتے ہیں۔ راجستھان کا الور ثقافتی اور سماجی طور پر میوات کے بے حد قریب ہے لہذا میوات کے مویشی پرور الور اور بھر ت پور سے ہی مویشی خریدتے ہیں۔ میوات کا دودھ راجستھان، اتر پردیش، ہریانہ کے نزدیکی شہروں اور دہلی میں سپلائی کیا جاتا ہے۔

جیسے جیسے دودھ کا کاروبار بڑھ رہا ہے گئورکشکوں کے حملہ بھی بڑھ رہے ہیں، کانگریس کے الور سے رکن پارلیمنٹ کرن سنگھ یادو نے پارلیمنٹ میں جاری مانسون اجلاس کے دوران اس پار تشویش کا اظہار بھی کیا ہے۔

کرن سنگھ یادو کا کہنا ہے کہ یہاں پر دودھ کاروباری بھینس کا دودھ 25 روپے لیٹراور گائے کا دودھ تقریباً19 روپے لیٹر میں خریدتا ہے۔ ان کے مطابق کئی خاندان تو ایسے ہیں جو شادی یا دوسرے خرچ کے لئے دودھیا سے ایڈوانس میں پیسے لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔

سابق وزیر اور کانگریس کے سینئر رہنما چودھری آفتاب احمد کہتے ہیں ’’میوات کے دودھ کاروبار کو تباہ کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس روزگار کے نام پر کھیتی یا پھر وہ مویشی پروری کرتے ہیں۔

مبینہ گئورکشک گائے تحفظ کے نام پر میوات کے مویشی پروروں کا قتل کر کے لوگوں میں دہشت پھیلا رہے ہیں۔ ان کا مقصد میوات کے لوگوں کو اس کاروبار سے علیحدہ کرنا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔