رپورٹ: سی اے اے نافذ ہونے کے بعد خطرہ میں ملک کے صحافی!
رپورٹ میں دسمبر سے لے کر فروری تک صحافیوں پر ہوئے حملے کے تین مرحلے شمار کرائے گئے ہیں۔ صحافیوں پر حملے کا پہلا مرحلہ سی اے اے کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد شروع ہوا تھا۔
ان دنوں ملک میں میڈیا کی آزادی سنگین خطرے میں نظر آ رہی ہے۔ پورے ملک میں گزشتہ کچھ دنوں میں صحافیوں پر حملے بڑھے ہیں۔ صرف راجدھانی دہلی میں گزشتہ ڈھائی مہینے میں تقریباً تین درجن صحافیوں پر حملے ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر صحافی قومی میڈیا اداروں سے منسلک ہیں، جو دہلی-این سی آر میں کام کر رہے ہیں۔ ان حملوں میں گرفتاری اور حراست سے لے کر گولی مارنے، مار پیٹ کرنے، کام کرنے سے روکنے، شرمندہ کرنے، گاڑی جلائے جانے سے لے کر دھمکانے اور جبراً مذہبی نعرے لگوائے جانے جیسے مظالم شامل ہیں۔ اور سب سے فکرانگیز بات یہ ہے کہ ان حملوں کے حملہ آوروں میں مشتعل بھیڑ کے ساتھ پولیس تک برابر شامل ہے۔
یہ سچ ’صحافیوں پر حملے کے خلاف کمیٹی‘ (سی اے اے جے) کے ذریعہ پیر کے روز جاری ایک اہم رپورٹ کے بعد سامنے آیا۔ ’ریپبلک اِن پیرل‘ عنوان سے جاری یہ رپورٹ دہلی کے پریس کلب آف انڈیا میں جاری کی گئی۔ سینئر صحافی اور کمیٹی کے آرگنائزر آنند سوروپ ورما، انگریزی رسالہ ’کارواں‘ کے پالیٹیکل ایڈیٹر ہرتوش سنگھ بل اور آل انڈیا ویمنس پریس کارپس کی سربراہ ٹی کے راج لکشمی نے ایک پریس کانفرنس میں اس رپورٹ کو جاری کیا۔
رپورٹ میں دسمبر سے لے کر فروری کے دوران صحافیوں پر ہوئے حملے کے تین مراحل شمار کرائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صحافیوں پر حملے کا پہلا مرحلہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے پارلیمنٹ سے پاس ہونے کے بعد سے شروع مظاہرہ کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ اس دوران صحافیوں پر سنگین حملے کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبا کے ذریعہ شروع کیے گئے مظاہرہ پر پولیس کارروائی کے دوران ہوئی۔ جامعہ مظاہرہ کی رپورٹنگ کرنے گئے کل 7 صحافیوں پر جسمانی حملہ کیا گیا۔ ان میں اہم نیوز چینل، نیوز ایجنسی، انٹرنیشنل میڈیا بی بی سی اور ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے صحافی بھی شامل ہیں۔ حملہ آوروں میں بھیڑ کے ساتھ پولیس بھی شامل رہی۔
پہلے مرحلہ میں 15 دسمبر سے 20 دسمبر کے درمیان پریس پر سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ ان حملوں میں بھیڑ اور پولیس دونوں کا کردار برابر رہا۔ اس کے بعد حملے کا دوسرا مرحلہ جنوری میں شروع ہوا جو پورے مہینے چلتا رہا۔ اس کی شرعات 5 جنوری کو جے این یو احاطہ میں نقاب پوشوں کے حملے کے دوران ہی ہوئی، جب جے این یو گیٹ کے باہر واقعہ کی رپورٹنگ کرنے گئے صحافیوں کو بھیڑ کے ذریعہ ڈرایا دھمکایا گیا، دھکا مکی کی گئی، نعرے لگانے کو مجبور کیا گیا۔ مظلوم صحافیوں کی گواہیوں سے سامنے آیا کہ اس پورے واقعہ کے دوران پولیس خاموش تماشائی بن کر کھڑی رہی۔ اس دوران کم از کم نصف درجن حملے کے معاملے سامنے آئے۔
حملے کا یہ مرحلہ جنوری 2020 ے آخری دن اپنے عروج پر پہنچ گیا جب صحافیوں کو آئی ٹی او اور راج گھاٹ پر دھمکایا گیا، پیٹا گیا اور حراست میں لیا گیا۔ کئی سینئر صحافیوں سمیت تقریباً 10 صحافی اس دوران حملے کا شکار ہوئے، جب وہ ستیہ گرہ مارچ کی رپورٹنگ کرنے اور مہاتما گاندھی کی برسی پر انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے گئے تھے۔ ایک مقامی اسٹیڈیم میں دیر رات تک نصف درجن سے زیادہ صحافیوں کو حراست میں رکھا گیا۔ اس حملے کے لیے پوری طرح سے دہلی پولیس ذمہ دار تھی۔ پریس کلب آف انڈیا نے اس واقعہ کو لے کر اسی دن بیان جاری کر اس کی مذمت کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق اس کے بعد شروع ہوا حملے کا تیسرا مرحلہ دہلی میں پریس کی آزادی کی تاریخ کا سب سے سیاہ اور خوفناک باب ہے۔ رپورٹ کے مطابق دسمبر اور جنوری کے دوران ہوئے یہ واقعات ہی مل کر فروری میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے وسیع تشدد کا سبب بنیں، جب برسرعام صحافیوں کو ان کی مذہبی شناخت ثابت کرنے تک کے لیے مجبور کیا گیا۔ دو دنوں یعنی 24 اور 25 فروری کے درمیان ہی کم از کم ڈیڑھ درجن صحافیوں کو رپورٹنگ کے دوران حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران انھیں رپورٹنگ سے روکا گیا، ہندو-مسلم کی شناخت کی گئی اور برسرعام انھیں شرمندہ کیا گیا۔ اسی دوران جے کے نیوز 24 کے آکاش ناپا کو تو سیدھے گولی ہی مار دی گئی۔
جہاں پہلا مرحلہ تقریباً ایک ہفتہ تک چلا اور کم از کم 7 صحافیوں پر حملہ ہوا، وہیں دوسرا مرحلہ پورے مہینے بھر تک چلتا رہا، لیکن اس دوران صحافیوں پر حملے کی تعداد 10 تک ہی رہی تھی، جب کہ حملوں کا آخری مرحلہ بھیانک اور اثر کے معاملے میں نہ صرف خوفناک رہا بلکہ بہت زیادہ فکر انگیز بھی رہا۔ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد کے دو دنوں کے اندر تقریباً 18 صحافیوں پر حملے ہوئے جو روزانہ اوسطاً 10 حملہ ہوتا ہے۔ اس دوران مین اسٹریم کے تقریباً ہر میڈیا گروپ کے صحافیوں پر حملے ہوئے۔ تیسرے مرحلہ کے حملے کے دوران مذہبی شناخت سب سے اہم معاملہ تھا۔
دہلی کے اس تشدد کے دوران حملوں اور مظالم کا شکار ہوئے قومی میڈیا کے صحافیوں نے اپنی آپ بیتی الگ الگ اسٹیج اور سوشل میڈیا پر بیان کی۔ کمیٹی کی رپورٹ انہی آپ بیتیوں اور رپورٹوں پر مبنی ہے۔ صحافیوں پر حملے کے خلاف کمیٹی جلد ہی 2019 میں صحافیوں پر ہوئے حملوں کی ایک مکمل سالانہ رپورٹ شائع کرنے جا رہی ہے۔ اس سے پہلے دسمبر 2020 کے آخر میں سی اے اے مخالف تحریک میں مظلوم صحافیوں کی ایک مختصر فہرست کمیٹی نے شائع کی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔