الوداع سال 2018، نئے سال کے ساتھ روشن ہو رہی ہے امید کی نئی شمع... ظفر آغا

بی جے پی میں ہی مودی مخالف آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ سال 2018 کے اختتام پر ملک میں مودی مخالف لہر کے آثار بھی نظر آ رہے ہیں اور نئے سال میں ملک کی تاریکی بھی ختم ہوتی محسوس ہو رہی ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی
کانگریس صدر راہل گاندھی
user

ظفر آغا

الوداع 2018، خوش آمدید 2019!

جی ہاں، قومی آواز پر آپ جب یہ تحریر پڑھ رہے ہیں تو سال 2018 کا سورج غروب ہو چکا ہے اور 2019 کے نئے سال کا سورج اپنی روشنی بکھیرتا ہوا طلوع ہو رہا ہے۔ اندھیرا ختم ہو رہا ہے اور روشنی پھیل رہی ہے۔ اگر ہم گزشتہ سال پر نگاہ ڈالیں اور پھر آنے والے سال میں مستقبل کو تلاش کریں تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں چھائی تاریکی ختم ہو رہی ہے اور ہندوستان میں نئے سال کی آمد پر نئی امید کی شمعیں روشن ہو رہی ہیں۔

ذاتی طور پر میرا ماننا ہے کہ گزشتہ چار ساڑھے چار سال ہندوستانی تاریخ میں تاریکی کے سال شمار کیے جائیں گے۔ سال 2014 میں ہندوستانی سیاست میں نریندر مودی کے عروج نے ملک کے باشندوں میں ایک نئی امید پیدا کی تھی۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ جیسے نعرہ کے ساتھ مودی نے ملک کی ایک بڑی آبادی کے دل کو چھو لیا تھا۔ تبھی تو سال 1989 کے بعد سے پہلی بار کوئی پارٹی مکمل اکثریت حاصل کر پائی تھی۔ ہندوستانیوں کے ذہن میں کہیں نہ کہیں یہ بات تھی کہ مودی جی ملک اور عوام کے لیے کچھ بہتر ہی کریں گے۔ حالانکہ ملک کا ایک بڑا طبقہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے نظریات کی وجہ سے مودی کے عروج سے پریشان تھا۔ لیکن انتخابی تشہیر میں زبردست میڈیا مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا پر تشہیر نے عوام کو ورغلایا اور بی جے پی مودی کی قیادت میں اقتدار کے عروج پر پہنچ گئی۔

لیکن ’سب کا ساتھ، سب کا وِکاس‘ کا نعرہ دے کر انتخاب جیتنے والے مودی جی اور ان کے ساتھی یہ سمجھ بیٹھے کہ ملک نے ان کو ’ہندوتوا‘ نظریات نافذ کرنے کا مینڈیٹ دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جلد ہی ملک میں ’گئو رکشکوں‘ اور کئی طرح کی ہندو سیناؤں کی دہشت پھیلنے لگی۔ کیا 21ویں صدی میں گئو کشی کی سزا دلتوں کو کوڑے مار کر دینے کا تصور کیا جا سکتا تھا۔ لیکن گجرات میں مودی دور میں ’اونا‘ نام کی جگہ پر ایسا ہوا۔ اسی طرح ابھی حال میں راجدھانی دہلی کے پاس بلند شہر میں گئو رکشکوں نے ایک پولس انسپکٹر کا قتل اس لیے کر دیا کہ اس نے بلوائیوں کو بلوا کرنےیعنی فساد برپا کرنے سے روکا۔ اسی حکومت میں ہندوستان میں پہلی بار ’موب لنچنگ‘ جیسے بربریت پر مبنی واقعات عام ہو گئے۔ ایک جانب سماجی دہشت تو دوسری طرف آئین اور سپریم کورٹ، سی بی آئی اور آر بی آئی جیسے اداروں پر منصوبہ بند طریقے سے حملہ ہوا۔

اُدھر ملک کی معیشت منمانے ڈھنگ سے چلانے کی کوشش ہوئی۔ کبھی نوٹ بندی تو کبھی سوچے سمجھے بغیر جی ایس ٹی جیسے طفلانہ اقدام نے ملک کی تجارت ٹھپ کر دی اور ساتھ ہی بے روزگاری کی آفت پھیلا دی۔ پھر نیرو مودی جیسوں کو بینک لوٹ کی کھلی چھوٹ دی گئی تو رافیل معاہدہ میں زبردست دھاندلی بھی ہوئی۔ آج ملک کا معاشی حال یہ ہے کہ مودی حکومت کے پاس صرف تنخواہ بانٹنے کے علاوہ اور پیسہ نہیں بچا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مودی اور جیٹلی ریزرو بینک آف انڈیا کی ’ریزرو پونجی‘ پر ڈاکہ ڈال کر سرکاری کام چلانے کی کوشش میں ہیں۔

جی ہاں، مودی راج میں ملک ترقی کرنے کی جگہ تباہی کی سمت چل پڑا ہے۔ سماجی نابرابری، بے روزگاری، ٹھپ کاروبار، ملک کی سیاسی سمت و رفتار بدلنے کی کوشش جیسی حالت نے ہندوستان کے لیے ایک بڑا مسئلہ پیدا کر دیا۔ لیکن ہندوستان کوئی پاکستان نہیں ہے۔ ہندوستان صدیوں سے درمیانی راستہ اختیار کرنے والا ملک رہا ہے اور یہاں جمہوریت کی روایت بھی کوئی نئی نہیں ہے۔ پیپل کے پیڑوں اور چوپالوں میں پنچایتی فیصلے ہمارے ڈی این اے میں شامل ہیں۔ پھر 100 سالوں سے زیادہ تحریک آزادی اور پھر آزادی کے بعد نہ جانے کتنی تحریکیوں کی روایت رہی ہے۔ بھلا اس ملک کے عوام کو ایک مودی جیسے لوگ کب تک اور کتنا بھٹکا اور غلط فہمی میں مبتلا رکھ سکتے ہیں۔

چار ساڑھے چار سالوں میں ملک پر چھائی تاریکی ختم ہونے لگی ہے۔ نوٹ بندی کی مار سہنے کے بعد بہت سارے مودی بھکتوں کی بھی آنکھیں کھلنے لگی ہیں۔ اسی لیے تو 2018 ختم ہوتے ہوتے تبدیلی کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ اس کا سب سے پہلا احساس گجرات انتخاب کے وقت ہوا۔ گجرات کو تقریباً دو دہائیوں سے ’ہندوتوا کی تجربہ گاہ‘ اور مودی گڑھ مانا جاتا تھا۔ بی جے پی گجرات انتخاب ہارتے ہارتے بچ گئی۔ جگنیش، الپیش اور پٹیل نے مودی کے خلاف جو گجرات تحریک چلائی اس تحریک کا انتخاب میں کانگریس صدر راہل گاندھی نے قیادت کر یہ ثابت کر دیا کہ مودی ناقابل تسخیر شخص نہیں ہیں۔ بس پھر کیا تھا، دیکھتے دیکھتے کرناٹک میں راہل اور اپوزیشن کا تال میل رنگ لایا اور 2018 میں کرناٹک کی جانب بڑھتے بی جے پی کے قدم رک گئے۔ اس طرح مودی-شاہ کا جنوب فتح کرنے کا خواب تو ٹوٹا ہی ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ نریندر مودی کو 2019 میں شکست فاش دی جا سکتی ہے۔

سال 2018 کے گزشتہ 6 مہینے میں مودی آسمانِ ہند پر تنہا نہیں تھے۔ رافیل گھوٹالہ اور عوام میں بڑھتی ناراضگی کے ساتھ کانگریس صدر راہل گاندھی سایہ کی طرح نریندر مودی کا پیچھا کر رہے تھے اور 2018 کا سورج غروب ہونے سے پہلے ہی راہل گاندھی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ ہندی بیلٹ جس نے نریندر مودی کو ہندوستان کا تاج پہنایا تھا، وہی ہندی بیلٹ اب مودی کو گدی سے اتارنے کو تیار ہے۔ 2018 کے اختتام کے ساتھ ہی ساتھ سیاسی گلیارے میں تو یہ سوال بھی اٹھنے لگے ہیں کہ اگر بی جے پی اگلی بار پھر حکومت تشکیل دیتی ہے تو اس کے وزیر اعظم مودی ہوں گے یا گڈکری۔ یعنی نئے سال کی آمد پر مودی جی گھر کے بچے نہ گھاٹ کے۔ خود بی جے پی میں مودی کے خلاف آوازیں اٹھنی شروع ہو گئی ہیں۔

2019 کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔ لیکن رام مندر اور اقلیت مخالف رویہ کی سیاست کرنے والے مودی اور آر ایس ایس ملک کو پھر نفرت کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔ لیکن 2019 کسی بھی طرح سے 2014 نہیں ہے جب کانگریس پارٹی ایک دہائی کی حکومت کے بوجھ سے تھکی ہاری پارٹی بن چکی تھی۔ آج کانگریس صدر راہل گاندھی کی قیادت میں کانگریس نئی توانائی کے ساتھ اپوزیشن کو ساتھ لے کر مودی سے لوہا لینے کو تیار کھڑی ہے۔ 2018 کے انتخابی نتائج بھی یہی بتا رہے ہیں کہ مودی سے ہندوستان کا دل بھر چکا ہے اور 2019 مودی کا ہندوستان نہیں بلکہ صدیوں پرانا وہی ہندوستان ہوگا جو ہمیشہ سب کے لیے تھا۔ یہی ہندوستان کی شناخت تھی اور 2019 میں ہندوستان پھر اسی شناخت کے ساتھ منظر عام پر آئے گا۔

اسی امید کے ساتھ ’قومی آواز‘ کے قارئین کو نئے سال کی بے پناہ مبارک باد۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Jan 2019, 11:09 AM