برج نارائن چکبست: ’ہوم رول‘ کے لیے ’بہشت‘ کو بھی ٹھکرا دینے والا شاعر... علی جاوید

وطن پرستی چکبست کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے، اس تعلق سے ان کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن میں وطن سے محبت کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے

برج نارائن چکبست
برج نارائن چکبست
user

علی جاوید

برج نرائن چکبست 19 جنوری 1882 کو فیض آباد میں آباد کشمیری برہمنوں کے ایک علمی اور ادبی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد پنڈت اودے نرائن فیض آباد میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ وہ اردو فارسی کے عالم بھی تھے اور بذات خود اردو میں شاعری کرتے تھے اور یقینؔ ان کا تخلص تھا۔ چکبست کی عمر پانچ سال تھی کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا تو والدہ کے ساتھ لکھنؤ منتقل ہو گئے اور والدہ نے ان کا داخلہ کاظمین اسکول میں کروا دیا۔ اس کے بعد 1898 میں گورنمنٹ جوبلی اسکول میں داخلہ لیا اور 1900 میں دسویں جماعت کا امتحان پاس کر کے کیننگ کالج میں داخل ہوئے۔ 1902 میں ایف اے یعنی بارہویں کا امتحان، 1905 میں بی اے اور 1907 میں وکالت کا امتحان پاس کر کے لکھنؤ میں وکالت شروع کر دی اور شہرت حاصل کی۔ 1906 میں پہلی بیوی کے انتقال کے بعد 1907 میں دوسری شادی کی جن سے کئی بچے پیدا ہوئے، لیکن صرف ایک بیٹی، جن کا نام مہاراج دلاری تھا، وہ زندہ رہیں۔

ایسا کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 9 سال کی عمر سے ہی شعر کہنے شروع کر دیے تھے اور لکھنؤ کے ادبی حلقوں میں جلد ہی مقبولیت حاصل کر لی۔ اردو کے علاوہ وہ انگریزی اور فلسفے میں بھی گہری دلچسپی رکھتے تھے، جس کے باعث ایک وکیل کی حیثیت سے بھی بہت مقبول ہوئے۔ چکبست نے چھوٹی عمر پائی اور چوالیس سال کی عمر میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔ ان کی زندگی میں ہی ان کی دو کتابیں شائع ہوئیں جن میں صبح وطن (شاعری کا مجموعہ) اور مضامین چکبست نے بہت مقبولیت حاصل کی۔

خاندانی روایات کے مطابق چکبست نے ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی میں گھر پر ہی ایک مولوی صاحب کی نگرانی میں حاصل کی اور لکھنؤ کی مشترکہ تہذیبی روایات کے مطابق وہاں کے علمی اور ادبی ماحول میں رچ بس گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب تحریک آزادی کے میدان میں گاندھی جی، اینی بسنٹ، گوپال کرشن گوکھلے وغیرہ سے اثر قبول کرتے ہوئے سیاسی بصارت حاصل کی۔ اس اثر کے تحت وہ ’ہوم رول‘ کی تحریک میں شامل ہوئے اور اس سلسلے میں ان کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں۔


چکبست شاعری میں غالب سے کافی متاثر تھے اور اپنے ہم عصروں میں علامہ اقبال کا اثر قبول کیا۔ ان کی شاعری کو وطن پرستی، مذہبی، سیاسی رجحان کے تحت کئی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ان کی غزل کا ایک شعر اتنا مقبول ہوا کہ ان کی زندگی میں ہی ضرب المثل کی حیثیت حاصل کر لی جو اس طرح ہے:

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب

موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

اس وقت لکھنؤ میں غالبؔ کی اس زمین میں کئی شعرا نے طبع آزمائی کی جن میں چکبست کی غزل بھی عام لوگوں کی پسندیدگی کا حصہ بنی جس کے چند اشعار اس طرح ہیں:

درد دل، پاس وفا، جذبۂ ایماں ہونا

آدمیت ہے یہی اور یہی انساں ہونا

نو گرفتار بلا طرز وفا کیا جانیں

کوئی ناشاد سکھا دے انہیں نالاں ہونا

ان اشعار میں لکھنؤ اسکول کی شاعری کی جھلکت صاف نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں:

انہیں یہ فکر ہے ہردم نئی طرز جفا کیا ہے

ہمیں یہ شوق ہے دیکھیں ستم کی انتہا کیا ہے

گنہگاروں میں شامل ہیں، گناہوں سے نہیں واقف

سزا کو جانتے ہیں ہم خدا جانے خطا کیا ہے

یا

نیا بسمل ہوں میں واقف نہیں رسم شہادت سے

بتا دے تو ہی اے ظالم تڑپنے کی ادا کیا ہے

یا

اگر درد محبت سے نہ انساں آشنا ہوتا

نہ کچھ مرنے کا غم ہوتا نہ جینے کا مزا ہوتا


وطن پرستی ان کی شاعری کا ایک اہم جزو ہے۔ اس تعلق سے ان کی نظمیں بہت مقبول ہوئیں جن میں وطن سے محبت کا جذبہ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان نظموں میں ’خاک ہند‘، ’ہمارا وطن دل سے پیارا وطن‘، ’وطن کا راگ‘، ’حب قومی‘ اور ’ہوم رول‘ آج بھی اپنی اہمیت کے لیے مقبول ہیں۔ ’خاک ہند‘ کے چند اشعار اس طرح ہیں:

اے خاک ہند تیری عظمت میں کیا گماں ہے

دریائے فیض قدرت تیرے لیے رواں ہے

تیرے جبیں سے نورِ حسن ازل عیاں ہے

اللہ رے زیب و زینت کیا اوج عز و شاں ہے

شمع ادب نہ تھی جب یوناں کی انجمن میں

تاباں تھا مہر دانش اس وادیٔ کہن میں

گوتم نے آبرو دی اس معبد کہن کو

سرمد نے اس زمیں پر صدقے کیا وطن کو

اکبر نے جام الفت بخشا اس انجمن کو

سینچا لہو سے اپنے رانا نے اس چمن کو

کچھ کم نہیں اجل سے خواب گراں ہمارا

اک لاش بے کفن ہے ہندوستاں ہمارا

یا

زمین ہند کہ رتبہ میں عرش اعلیٰ ہے

یہ ہوم رول کی امید کا اجالا ہے

مسز بسنٹ نے اس آرزو کو پالا ہے

فقیر قوم کے ہیں اور یہ راگ مالا ہے

وطن پرست شہیدوں کی خاک لائیں گے

ہم اپنی آنکھ کا سرمہ اسے بنائیں گے

طلب فضول ہے کانٹے کی پھول کے بدلے

نہ لیں بہشت بھی ہم ہوم رول کے بدلے

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ چکبست لکھنؤ کی مشترکہ تہذیبی روایت کے امین ہیں۔ اس تعلق سے ان کے یہاں انسان دوستی، تمام مذاہب کا احترام اور وطن پرستی کا جذبہ کار فرما ہے۔ وہ غالب سے متاثر ہونے کے ساتھ میر انیس اور دیگر لکھنؤ کے شعرا سے بھی متاثر نظر آتے ہیں اور مرثیے کی صنف میں بھی کامیاب شاعری کے نمونے پیش کیے ہیں۔ وطن پرستی سے لبریز انہوں نے بال گنگا دھر تلک اور گوپال کرشن گوکھلے کا مرثیہ بھی لکھا تو لکھنؤ کے امام باڑہ پر بھی عقیدت مندانہ نظم لکھی۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں:

گوپال کرشن گوکھلے کا مرثیہ لکھتے ہوئے کہتے ہیں:

لرز رہا تھا وطن جس خیال کے ڈر سے

وہ آج خون رلاتا ہے دیدۂ تر سے

صدا یہ آتی ہے پھل پھول اور پتھر سے

زمیں پہ تاج گرا قوم عہد کے سر سے

حبیب قوم کا دنیا سے یوں روانہ ہوا

زمیں الٹ گئی کیا منقلب زمانہ ہوا

بال گنگا دھر تلک کا مرثیہ لکھتے ہوئے کہا:

موت نے رات کے پردے میں کیا کیسا وار

روشنی صبح وطن کی ہے کہ ماتم کا غبار

معرکہ سرد ہے سویا ہے وطن کا سردار

طنطنہ شیر کا باقی نہیں سونا ہے کچھار

بے کسی چھاتی ہے تقدیر پھری جاتی ہے

قوم کے ہاتھ سے تلوار گری جاتی ہے


آصف الدولہ کے امام باڑہ پر کہی گئی نظم کے چند اشعار اس طرح ہیں:

آصف الدولۂ مرحوم کی تعمیر کہن

جس کی صنعت کا نہیں صفحۂ ہستی پہ جواب

دیکھ سیاح اسے رات کے سناٹے میں

منھ سے اپنے مہ کامل نے جب الٹی ہو نقاب

یہی ہوتا ہے گماں خاک سے مس اس کو نہیں

ہے سنبھالے ہوئے دامن میں ہوائے شاداب

اک عجب منظر دلگیر نظر آتا ہے

دور سے عالم تصویر نظر آیا ہے

جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے لکھنؤ کے تہذیبی ماحول میں مرثیہ کا نہایت نمایاں رول رہا ہے اور تقریباً اردو کے ہر شاعر نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن چکبست نے اس صنف کو ایک الگ انفرادیت بخشی ہے۔ انہوں نے جو مرثیہ لکھا اس کا عنوان رامائن کا ایک سین ہے جو رام چندر جی کے بن باس سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مرثیے سے اگر عنوان ہٹا کر پڑھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے واقعۂ کربلا میں علی اکبر کی رخصت کا منظر پیش کیا گیا ہو۔ اس کے چند بند ملاحظہ کیجیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے:

رخصت ہوا وہ باپ سے کہہ کر خدا کا نام

راہِ وفا کی منزل اول ہوئی تمام

منظور تھا جو ماں کی زیارت کا انتظام

دامن سے اشک پونچھ کے دل سے کیا کلام

اظہار بے کسی سے ستم ہوگا اور بھی

دیکھا ہمیں اداس تو غم ہوگا اور بھی

دل کو سنبھالتا ہوا آخر وہ نونہال

خاموش ماں کے پاس گیا صورت خیال

دیکھا تو ایک در میں ہے بیٹھی وہ خستہ حال

سکتہ سا ہو گیا ہے یہ ہے شدت ملال

تن میں لہو کا نام نہیں زرد رنگ ہے

گویا بشر نہیں کوئی تصویر سنگ ہے

کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ

نور نظر پہ دیدۂ حسرت سے کی نگاہ

جنبش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ

می گوشہ ہائے چشم سے اشکوں نے رخ کی راہ

چہرے کا رنگ حالت دل کھولنے لگا

ہر موئے تن زباں کی طرح بولنے لگا

رہ کر کہا خموش کھڑے کیوں ہو میری جاں

میں جانتی ہوں جس لیے آئے ہو تم یہاں

سب کی خوشی یہی ہے تو صحرا کو ہو رواں

لیکن میں اپنے منھ سے نہ ہرگز کہوں گی ہاں

کس طرح بن میں آنکھوں کے تارے کو بھیج دوں

جوگی بنا کے راج دلارے کو بھیج دوں

عہد حاضر میں جب چاروں طرف سماج میں مذہبی تنگ نظری اپنے عروج پر ہے، ایسے موقع پر چکبست جیسے شاعر اپنی مشترکہ تہذیبی روایت کی یاد دلاتے ہیں جن کے کارناموں کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم اپنے ماضی کی کشادہ ذہنی پر فخر کر سکتے ہیں۔ یہی مشترکہ روایات ہیں جو یاد دلاتی ہیں ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے لوگوں کے دلوں کو منور کیا ہے اور ہر طرح کے مذہبی تعصبات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کا درس دیا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ چکبست نے چھوٹی عمر پائی اور 12 فروری 1926 کو چوالیس سال کی عمر میں ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے لیکن انہوں نے اس چھوٹی سی عمر میں ہی جو ادبی کارنامے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں وہ انہیں ہمیشہ ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ آج ان کے یوم وفات کے موقعے پر ہم انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Feb 2021, 11:21 AM