براڑی: 11 اموات نے سماج کے سامنے کئی سوالات کھڑے کئے
یہ واقعہ ایک کہانی یاد دلاتا ہے جس میں ایک قتل ہوتا ہے، شہر بھر کو قاتلوں کی خبر ہے لیکن سب اس لئے خاموش ہیں کیوں کہ وہ قاتلوں کے اخلاقیات سے متفق ہیں۔
آج کے ہندوستان میں مذہبی اندھے عقیدے اور خودکشی کے تعلق سے تشریح پوچھا جانا بھی کئی لوگوں کو ناگوار گزر سکتا ہے۔ جہاں تک فراڈ، قتل جیسے سنگین جرائم کے ملزمین مذہبی باباؤں کا سوال ہے جو اس وقت جیل میں بند ہیں تو یہ صاف ہے کہ اصول وضوابط بنانے والے لوگوں کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔
دہلی کے سنت کبیر نگر میں رہنے والے بھاٹیہ خاندان کے 11 افراد کی موت ان طور طریقوں کی ایک خوفناک مثال ہے جنہیں پولس نے میڈیا کے سامنے ’اپنے گرو کی ہدایات پر اندھے طریقہ سے عمل‘ کرنا بتایا تھا اور اس پر ابھی تک زیادہ لوگوں کی نظر نہیں گئی ہے۔ حالانکہ گھر سے جو ڈائری برآمد ہوئی ہے اس میں ان ہدایات کا سلسلہ وار تذکرہ ہے کہ کس طرح پورے خاندان کو بلی کے بکرے کی طرح عظیم قتل عام کے لئے تیار کیا گیا۔ ڈائری میں آخری ہدایت میں کہا گیا ہے کہ ماں ’اجتماعی موکش‘ سے پہلے خاندان کے تمام ارکان کو کھانا کھلائے گی۔ تو جیسا بتایا گیا ہے کہ پڑوس کے ایک ریسٹورینٹ سے 20 روٹیاں منگوائی گئیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ متاثرین کو وہ کھلائی بھی گئیں۔ (ہندو مذہب میں دوسرے جنم کا تصور ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی انسان کی موت کے بعد جب وہ جنم اور مرن کے سلسلہ سے نجات پا جاتے ہیں تو اسے موکش حاصل ہو جاتا ہے)۔
اندھے عقیدے کے لفظی معنی ایسے یقین سے ہیں جو منطقی نہ ہو کر جس پر بغیر تصدیق بھروسہ کر لیا جائے۔ براڑی کا واقعہ مصنف گیبریل مارکھیز کی کتاب ’کرانیکل آف اے ڈیتھ فورٹولڈ‘ کی یاد دلاتا ہے جس میں ایک ایسے قتل کا ذکر ہے جس کے بارے میں شہر بھر کو علم ہے لیکن سب خاموش ہیں کیوں کہ وہ قاتلوں کے اخلاقیات سے متفق ہیں۔ کتاب میں ایک پڑوسی کہتا ہے، ’’اینجلا ویکاریو ایک نن کی طرح نظر آتی ہے‘ جس کے کنواری نہ ہونے سے شادی کے بعد مسائل پیدا ہوئے اورایک ایک شخص کا قتل ہو گیا۔
براڑی کے سنت کبیر نگر میں بھی میڈیا اور پولس نے جب پڑوسیوں سے سوال کئے تو سب نے ان کی تعریفیں شروع کر دیں۔ سب نے کہا کہ وہ کتنے اچھے تھے۔ وہ دیوتاؤں پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔ وہ مستقل طور پر مندر جاتے تھے اور پوجا کرتے تھے۔ خاندان کی سب سے عمر دراز خاتون کے ساتھ بیٹھ کر ہر شام مذہبی سنسنگ کرتے تھے اور بھجن سنتے تھے۔ سب کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں آپسی میل ملاپ بہت زیادہ تھا ۔ ٹی وی پر ایک شخص نے زور دے کر کہا کہ بھاٹیہ خاندان ایک مثالی ہندو خاندان تھا، مذہبی، روادار اور پرسکون۔
یوں تو بھاٹیہ خاندان کے 11 افراد کی موت کو خودکشی کہا جا رہا ہے لیکن مغالطہ میں نہ رہیں، یہ اجتماعی قتل ہے جو مذہبی مشوروں کے سبب ہوا ہے۔ نوعمر لڑکے لڑکیاں بھی اس قتل عام کے متاثرین میں شامل ہیں۔
یہ واقعہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ تمام بر صغیر میں خواتین اور بچوں کے خلاف بغیر روک ٹوک گھروں میں ہونے والے جنسی تشدد کے خلاف بنے قوانین کا کیا ہوتا ہے؟ کون انہیں بناتا ہے، ترمیم کرتا ہے، ان کی تشریح کرتا ہے اور ان پر فیصلے سناتا ہے؟ کیا خاندان اور نسل کے گراوٹ والے اصول اور جنسی خیالات اور طور طریقہ (ہریانہ میں ایک دلت خاتون کے ساتھ دو مردوں کے ایک ہی گروپ نے دو بار عصمت دری کی اور جھارکھنڈ میں واٹس ایپ پیغامات سے پھیلی افواہ کے سبب کئی لوگوں کو بھیڑ کی طرف سے قتل کر دیا گیا) مردوں کو پیدا کرنے کی قوت پر قبضہ اور بچوں پر قابو کرنے کی پہنچ نہیں دیتے! اگر قانون کا ان چیزوں پر دھیان نہیں جاتا ہے جن میں کچھ مرد ذہنی طور پر غیر مستحکم ہیں اور جنہیں ماہر نفسیات اور ادارتی صلاح کی ضرورت ہوتی ہے؟
لنچنگ کو ہندوستان کا کوئی قانون جائز نہیں ٹھہراتا لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں کوئی بھی بھیڑ ایسا کرتے ہوئے مشکل میں نہیں آئی۔ کوئی سماج نہیں کہتا کہ ایک خاندان کو رسمی طور پر پورے خاندان کو پھانسی پر چڑھانے سے پہلے انہیں روٹی کھلانی چاہیے۔ لیکن یہ ضروری نہیں چونکہ خاندان کی زیادہ تر خواتین اور بچے بھی اندھے عقیدے میں جکڑے ہوتے ہیں، وہ خاندان کے مرد سربراہ کو درکنار کرنے کے بجائے مر جاتے ہیں۔ قانون اپنے ہی خاندان کے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دینے پر تو سزا دیتا ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے اکسانے والے تانترکوں اور باباؤں پر کوئی لگام نہیں لگاتا اور نہ ہی انہیں قانون کے دائرے میں لایا گیا ہے۔
ہمارے ملک میں سوشل میڈیا پر ایک خاتون وزیر خارجہ کے شوہر کو جو خود بھی سابق گورنر ہیں، صلاح دی جاتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ماریں پیٹیں۔ اور اتنا سب کچھ ہو جانے کے بعد بھی ان کی پارٹی کا کوئی رہنما ایک لفظ نہیں بولتا۔ ایسے سماج کا ایسا ہی حال ہوگا اور پاگل پن اور بڑھے گا۔ اگر کھاپ پنچایتیں اور کالجوں کے پرنسپل ایسے اصول بناتے رہیں کہ لڑکیوں اور لڑکوں کو پارک اور عوامی مقامات پر ایک ساتھ نظر نہیں آنا چاہئے، جینز نہیں پہننا چاہئے، اگر درجنوں باباؤں کو کابینی وزیر بنایا جائے گا تاکہ ان کے پیروکار برسراقتدار پارٹی کو ووٹ دیتے رہیں، تو پھر اقوام متحدہ کے سروے میں ہندوستان میں خواتین کی حالت افغانستان اور پاکستان سے بھی زیادہ خطرناک نظر آئے گی ہی۔
اس وقت ہمیں معلوم چل رہا ہے کہ کرنی سینا کے سویم سیوکوں نے جنہوں نے کچھ مہینوں قبل ’پدماوت‘ اور خاتون کے وقار کو لے کر ہنگامہ کیا تھا، انہوں نے بھی اس مسئلہ میں ٹانگ اڑا دی ہے اور سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر ایسا نہیں ہوا تو وہ پھر سے سڑکیں جام کریں گے! کئی سمجھدار لوگ حکومت سے اس بکواس کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر بھوکوں اور غریبوں کو ٹھیک سے کھانا اور روزگار مل جائے تو قتل عام کا یہ دور اپنے آپ رک جائے گا۔ لیکن یہاں ایک سوال پوچھا جانا چاہئے، پاولوو کا کتا (نفسیاتی اصول) کیا ہر بار سچ میں بھوکا تھا جب اس نے اپنے مالک کے گھنٹی بجانے پر زبان لپلپائی؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Jul 2018, 10:20 AM