نوح میں بلڈوزر کی کارروائی، میڈیکل اسٹورس سمیت 45 دکانیں منہدم، دکانداروں نے لگایا بغیر نوٹس کارروائی کا الزام
انتظامیہ کو شبہ ہے کہ ان میں سے کچھ دکاندار تشدد میں ملوث تھے، جبکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کا تشدد سے کسی طرح کا واسطہ نہیں ہے اور انتظامہ نے بغیر نوٹس دیے کارروائی کر کے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے
نوح: ہریانہ کے نوح ضلع میں ہفتہ کو تیسرے دن بھی انتظامیہ نے بلڈوزر کے ذریعے کارروائی کرتے ہوئے متعدد دکانوں کو مسمار کر دیا۔ شہید حسن خان میواتی گورنمنٹ میڈیکل کالج، نوح کے قریب کیمسٹ کی دکانوں سمیت تقریباً 45 دکانوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے منہدم کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کو شبہ ہے کہ ان میں سے کچھ دکاندار تشدد میں ملوث تھے۔ جبکہ دکانداروں کا کہنا ہے کہ ان کا تشدد سے کسی طرح کا واسطہ نہیں ہے اور انتظامہ نے بغیر نوٹس دیے کارروائی کر کے ان کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔
آئی اے این ایس کی رپورٹ کے مطابق عہدیداروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے نلہڑ روڈ پر میڈیکل کالج کے ارد گرد 2.6 ایکڑ اراضی پر غیر قانونی تعمیرات کو بلڈوز کر دیا۔ زیادہ تر عارضی دکانیں ان تارکین وطن کی تھیں جو مبینہ طور پر سرکاری اراضی پر قبضہ کر کئے ہوئے تھے۔ پولیس کی بھاری نفری کے درمیان ان کو مسمار کر دیا گیا۔
انتظامیہ کی کارروائی کے بعد موقع پر دکاندار اپنا سامان بھرتے ہوئے جذباتی ہو گئے۔ ایک چینل سے بات کرتے ہوئے دکانداروں نے کہا ’’اگر یہاں کے دکانداروں نے پتھربازی کی ہو تو کوئی ویڈیو فوٹیج دکھائیں جس میں کوئی دکاندار شامل ہو۔ بلکہ بجرنگ دل کے لوگوں نے ہمارے ساتھ ہاتھا پائی کی تھی۔ انتظامیہ ہماری کوئی بات نہیں سن رہی یہ تاناشاہی ہے۔ یہاں تمام دکانیں مسلمانوں کی ہیں اور مسلمانوں کو ٹارگیٹ کیا جا رہا ہے۔‘‘
رفیق احمد بھی ان میں سے ایک ہیں جن کی میڈیکل کی دکان توڑ دی گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے ان کی دکان پر بلڈوزر چلانے سے پہلے انہیں کوئی نوٹس نہیں دیا۔ انہوں نے کہا ’’یہاں سے یاترا نکلی تھی۔ جھگڑا کہیں اور ہوا، سزا ہم بھگت رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہاں کوئی جھگڑا نہیں ہوا، یہاں سے آگے جا کر مندر میں جھگڑا ہوا تھا۔‘‘
رفیق نے کہا ’’بجرنگ دل والوں نے میرے ساتھ ہاتھا پائی کی۔ مجھے خود چوکی پر موجود پولیس والوں نے بچایا۔ تاوڑو میں مسجد جلا دی گئی، گڑگاؤں میں بھی مسجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، سب کا الزام مسلمانوں پر ہی عائد کیا جا رہا ہے۔ کیا ہر ایک جرم صرف اور صرف مسلمان ہی کر رہے ہیں۔‘‘ ایک اور میڈکل اسٹور چلانے والے محمد یونس کا بھی یہی کہنا تھا کہ انتظامیہ نے انہیں کارروائی سے پہلے کوئی نوٹس نہیں دیا۔ یونس کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ 10-11 سالوں سے یہاں میڈیکل اسٹور چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت ان کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔
ایک اور دکاندار نے کہا کہ اگر یہ جگہ غیر قانونی ہے تو کیا انتظامیہ کو آج ہی یہ سب نظر آیا ہے۔ آج فساد ہو گیا تو توڑ پھوڑ شروع ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیکل اسٹور کا لائسنس بغیر دستاویز دکھائے نہیں ملتا پھر اچانک یہ کارروائی کیوں کی گئی؟ لوگوں کو شکایت ہے کہ انہیں سامان اٹھانے تک کی مہلت نہیں دی گئی۔ یہاں پر تمام لوگ روزی روٹی کمانے کے لئے آتے ہیں، وہ فسادات میں شامل نہیں ہو سکتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تجاوزات ہٹانے کے دوران کچھ دکانیں ہندوؤں کی بھی توڑ دی گئی ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں پر ہندو مسلمان سب مل کر کام کرتے ہیں اور وہ کسی طرح کے تشدد یا فساد میں ملوث نہیں تھے۔
وہیں، سب ڈویژنل مجسٹریٹ اشونی کمار نے میڈیا کو بتایا ’’یہ تمام غیر قانونی تعمیرات تھیں اور مسمار کرنے سے قبل مالکان کو نوٹس دے دیے گئے تھے۔ تشدد میں غیر قانونی تعمیرات کے کچھ مالکان بھی ملوث تھے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔