بلند شہر تشدد: انسپکٹر سبودھ کے ’قاتل‘ کی مورتی نصب، شہید کے درجے کا مطالبہ
سمت کے والد نے کہا کہ پولس اسے دنگائی بتا کر ہمارے دل کو ٹھیس پہنچا رہی ہے، لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ سمت کو شہید کا درجہ دیا جائے، اگر مطالبہ پورا نہیں ہوتا تو ہم 3 دسمبر کو اپنا مذہب تبدیل کرلیں گے
اتر پردیش کے بلند شہر میں ہوئے تشدد میں شہید انسپکٹر سبودھ کمار کے انصاف کے لئے در در بھٹک رہے رشتہ داروں کے لئے دیوالی پر ایک اور تکلیف دہ خبر آئی، دراصل اتوار کے روز شہید انسپکٹر سبودھ کے قتل میں نامزد کئے گئے سمت کو ’گئوركشک ویر‘ کا خطاب دیتے ہوئے اس کے گاؤں چنگراوٹھی میں اس کے مجسمہ کو نصب کیا گیا ہے، تشدد کے دوران مبینہ طور پر سمت پولس کی گولی کا شکار ہوا تھا، بلند شہر تشدد کے ایک ویڈیو میں وہ پولس پر پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
چنگراوٹھی گاؤں میں اتوار کو سُمت کی مورتی کی تنصیب کے وقت اس کے اہل خانہ، خاندان، رشتہ دار اور کچھ گاؤں والے بھی شامل ہوئے۔ اس دوران اس کی مبینہ بہادری کی ستائش بھی کی گئی۔ سمت کے والد امرجیت سنگھ دلال نے کہا کہ انہیں ان کے بیٹے پر فخر ہے، وہ گئوركشا کرتے ہوئے شہید ہوا ہے، اس لئے اس کی مورتی کو نصب کیا ہے۔ مگر وہ حکومت کے رویہ سے سخت ناراض ہیں، گاؤں کے لوگ سمت کی موت کے لئے 50 لاکھ روپے معاوضے کا مطالبہ کر رہے ہیں، انہوں نے کہا، ’’ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ سُمت کو شہید کا درجہ دیا جائے، پولس اسے دنگائی بتا کر ہمارے دل کو ٹھیس پہنچا رہی ہے، اگر ہماری سنوائی نہیں ہوئی تو ہم 3 دسمبر کو اپنا مذہب تبدیل کر لیں گے‘‘۔
مبینہ قاتل کو دیئے گئے اعزاز کی خبر پر شہید انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ کی بیوی رجنی نے بے حد افسوس ظاہر کیا ہے، ان کے مطابق ان کے گھر دیوالی کی خوشیاں بھی نہیں ہیں، کیونکہ ان کے شوہر اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب جب ان کے قتل کے ملزمان کے جیل سے باہر آنے پر خیر مقدم کیا جاتا ہے، نعرے لگائے جاتے ہیں تو وہ ذہنی طور پر تیار ہوچکیں ہیں اور اب اس طرح کی کسی بھی خبر سے وہ بہت زیادہ پریشان نہیں ہوتیں، انہوں نے کہا کہ یہ تو ملک کے انصاف پسند لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ہندوستانی معاشرہ میں کتنا زوال آچکا ہے، اب کوئی بھی پولس اہلکار اپنی ڈیوٹی کے دوران اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے سے پہلے کئی بار سوچے گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال 1 سے 3 دسمبر تک بلند شہر میں مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مذہبی جلسہ (اجتماع) منعقد ہوا تھا، اسی دوران 3 دسمبر کی صبح مهاب گاؤں کے جنگلوں میں مبینہ گائے کی باقیات پائے جانے کے بعد مشتعل مقامی لوگوں نے چنگراوٹھی پولس چوکی کو آگ کے حوالے کر دیا تھا، مشتعل ہجوم کے تیور دیکھ کر زیادہ تر پولس اہلکار اپنی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے، لیکن سيانہ کے انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ بہادری سے دنگائیوں کے سامنے ڈٹے رہے، دنگائیوں نے انہیں شہید کر دیا، اس دوران ہجوم میں شامل ایک مقامی نوجوان سُمت بھی گولی لگنے سے ہلاک ہوگیا تھا۔
سُمت کے اہل خانہ کا دعوی تھا کہ اس کی موت پولس کی گولی سے ہوئی ہے، واقعہ کے بعد سے ہی سُمت کا خاندان اس کو شہید کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہا ہے، ریاستی حکومت نے معاملے کی جانچ ایس آئی ٹی کو سونپ دی تھی، جس میں گئوكشی کے الزام میں 11 لوگوں کو اور ہنگامہ آرائی کرنے کے الزام میں 44 ملزمان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔ حالانکہ ان میں سے زیادہ تر ضمانت پر باہر آ چکے ہیں، ان میں بجرنگ دل کا ضلع کنوینر یوگیش راج اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ کا شہر کنوینر شکھر اگروال جیسے نام بھی شامل ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
- Uttar Pradesh
- Bulandshahr riots
- Bulandshahar
- Inspector Subodh
- Assam Violence
- Bulandshahar Violence
- Murder Accused
- Statue of Sumit