مودی حکومت کی ضد نے پارلیمانی جمہوریت کو نقصان پہنچایا
حکومت اس بات پر خوش ضرور ہوگی کہ اس نے حزب اختلاف کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے لیکن اس اجلاس نے اسپیکر کے عہدہ کے وقار کو تارتار کردیا ہے اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت ایک بزدل حکومت ہے۔
ایک بار پھر جمعہ کو پارلیمنٹ کا اجلاس بغیر کسی کارروائی کے اور بغیر کوئی تحریک عدم اعتماد کا نوٹس منظور کیے ملتوی ہو گئی۔ اس بار کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی ہوئی ہے یعنی پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس ختم ہو گیا۔ کئی ہفتہ سے زیر التوا پڑے تحریک عدم اعتماد کو منظور نہ کرنا موجودہ حکومت کی بدانتظامی، ضد اور بزدلی کی علامت کی شکل میں یاد رکھا جائے گا۔بزدلی اس لئے کہ یہ حکومت ایوان میں اکثریت ہوتے ہوئے بھی عدم اعتماد کی تحریک سے اتنی خوفزدہ نظر آئی کہ اس کو منظور کرنے سے روکنے کے لئے اس نے ہر ہتھ کنڈےاستعمال کیے۔
دوسری جانب ہو سکتا ہے کہ حکومت اس بات پر دل ہی دل میں خوش ہو رہی ہو کہ اس نے اپوزیشن کے منصوبے پورے نہیں ہونے دیے لیکن اس اجلاس نے لوک سبھا اسپیکر کے عہدہ کے وقار کو تار تار کر دیا ہے۔ حکومت نے سیاسی فائدہ کے لیے اس عہدہ کے وقار، اختیارات اور خودمختاری و آزادی کو قربان کر دیا۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس سے پہلے کبھی بھی تحریک عدم اعتماد کو اتنے طویل وقت تک لٹکا کر نہیں رکھا گیا۔ اپنی ناکامیوں کو قبول کرتے ہوئے لوک سبھا اسپیکر کا عہدہ کبھی بھی اتنا بے بس اور مضحکہ خیز نظر نہیں آیا۔ کبھی بھی لوک سبھا کارروائی شروع ہونے کے منٹ بھر کے اندر ہی ملتوی نہیں ہوئی۔ لوک سبھا کو ان سیاسی پارٹیوں نے یرغمال بنایا جو یا تو حکومت کی قریبی تھیں یا اس کے ساتھ تھیں۔ اور کوئی بھی وزیر برائے پارلیمانی امور اتنی بری طرح ناکام ثابت نہیں ہوا جو وہ رخنہ پیدا کرنے والی سیاسی پارٹیوں کو پہچان نہیں پایا۔
لوک سبھا اسپیکر سمترا مہاجن کے پاس یہ متبادل تھا کہ وہ کارروائی میں رخنہ پیدا کرنے والے مٹھی بھر ممبران پارلیمنٹ کو برخواست کر دیتیں۔ انھوں نے ایسا نہ کر کے پارلیمنٹ نام کے ادارہ کو شرمندہ کیا ہے۔ ان کے پاس اختیار تھا کہ وہ کسی بھی رکن کو مارشل کے ذریعہ ایوان سے باہر کرسکتی تھیں، پورے اجلاس کے لیے برخواست کر سکتی تھیں۔ لیکن تین ہفتہ تک وہ کھلونا بن کر حکومت کے ہاتھوں میں کھیلتی رہیں۔
لوک سبھا اسپیکر نے آئینی حدود کا بھی دھیان نہیں رکھا۔ روایت ہے کہ لوک سبھا کے سارے کاموں میں تحریک عدم اعتماد کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے۔ آئین کے مطابق اگر کوئی تحریک عدم اعتماد آتی ہے تو اسپیکر کے پاس سبھی کارروائیوں کو روک کر اس نوٹس کو منظور کر کے اس پر بحث کا وقت معین کرنے کے علاوہ کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ لیکن انھوں نے تحریک عدم اعتماد کے علاوہ حکومت کے بقیہ کاموں کو تجاویز کے ذریعہ ہونے دیا۔ سب سے زیادہ مضحکہ خیز بات تو یہ رہی کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے لئے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد ہی نہیں شمار کرا پائیں۔
اس اجلاس کو پارلیمانی تاریخ کے سیاہ باب کی شکل میں اس لیے بھی یاد کیا جائے گا کہ اس بار بغیر کسی بحث کے ایوان نے مرکزی بجٹ کو پاس کر دیا۔ ایسا کر کے حکومت اور اسپیکر نے پارلیمنٹ کو لایعنی ہی بنا دیا۔ اعداد و شمار کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک کل 26 تحریک عدم اعتماد آئیں ہیں اور ان میں سے 25 گری ہیں۔ ایک تجویز کے موقع پر وزیر اعظم نے خود ہی استعفیٰ دے کر اسے غیر ضروری بنا دیا تھا۔
اتحاد ی حکومت کے دور میں اگر تحریک عدم اعتماد روکنے کی کوشش ہوتی ہے تو اسے کچھ حد تک سیاسی نظریہ سے درست بھی ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ لیکن مکمل اکثریت والی بی جے پی اور این ڈی اے ایسا کرتے ہیں تو اس کا سیدھا مطلب ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں محض سیاست کر رہے ہیں، اور کچھ نہیں۔
دراصل کرناٹک انتخابات سر پر ہیں اور حکومت کوئی بھی ایسی بحث نہیں چاہتی جس میں اس سے ایسے سوال پوچھے جائیں جن کے جواب دینے میں اس کے پسینے چھوٹ جائیں۔ لیکن پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی آواز کو دبا کر حکومت نے پارلیمانی جمہوریت کے ساتھ جو کیا ہے وہ جمہوریت کے قتل کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
پورے اجلاس کے دوران نہ تو وزیر برائے پارلیمانی امور اور نہ ہی ایوان کے لیڈر کی طرف سے کوئی ایسی کوشش ہوئی جس سے لوک سبھا میں جاری رخنہ کو ختم کر کے بحث ہوتی۔ اس محاذ پر اسپیکر تو بری طرح ناکام رہیں۔ حکومت کی اس ناکامی کا ثبوت تو اس سے بھی مل جاتا ہے جب اجلاس ختم ہونے کے بعد تمام ممبران پارلیمنٹ نے ایک آواز میں کہا کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے تب سے نہ تو نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل، نہ نیشنل اتحاد کونسل اور نہ ہی مرکز-ریاست کونسل کی میٹنگ ہوئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Apr 2018, 6:31 PM