اتر پردیش: مایاوتی کے سامنے ’وجود‘ بچانے کا چیلنج
لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی نے 10 سیٹیں حاصل کی تھیں جس کے بعد اس کی سیاست ایک مرتبہ پھر زندہ ہوتی نظر آ رہی تھی لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج اس کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں نظر آ رہے ہیں
لکھنؤ: سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ساتھ اتحاد توڑ کر ضمنی انتخاب میں اترنے والی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کو بری طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا ہے اور وہ اتر پردیش کی 11 سیٹوں کے لئے ہونے والے ضمنی انتخابات میں اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول پائی۔ اس کے علاوہ 6 نشستوں پر اس کے امیدواروں کی ضمانت بھی ضبط ہو گئی۔ ایسی صورتحال میں آنے والے وقت میں بی ایس پی کو اپنی حکمت عملی میں تبدیلی لانی ہوگی اور اپنے بنیادی ووٹرز کو بچانا ہوگا۔
اتر پردیش کے علاوہ مہاراشٹر اور ہریانہ میں بھی بی ایس پی اپنا کھاتہ کھولنے میں ناکام رہی، جہاں مایاوتی خود تشہیر کے لئے پہنچی تھی۔ ضمنی انتخاب کے نتائج کا اعلان ہونے کے ساتھ ہی بی ایس پی سربراہ کا 2022 میں اقتدار میں واپسی کا خواب بھی چکناچور ہوتا نظر آ رہا ہے۔ ایگلاس اور جلال پور کو چھوڑ کر تمام سیٹوں پر بی ایس پی کی کارکردگی ناقص رہی ہے۔
رام پور، لکھنؤ کینٹ، زید پور، گووند نگر، گنگوہ اور پرتاپ گڑھ ایسی سیٹیں ہیں جہاں بی ایس پی اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکی۔ ضمانت کو بچانے کے لئے درکار کل ووٹوں میں سے 16.66 فیصد درکار ہوتا ہے لیکن بی ایس پی کو رام پور میں 2.14 فیصد، لکھنؤ کینٹ میں 9.64 فیصد، زید پور میں 8.21 فیصد، گووند نگر میں 4.52 فیصد، گنگوہ میں 14.37 فیصد اور پرتاپ گڑھ میں محض 12.74 فیصد ووٹ ہی حاصل ہو سکے۔ اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کا ووٹ ایس پی کے مقابلے میں پانچ فیصد کم رہا۔ جہاں ایس پی کو 22.57 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں وہیں بی ایس پی کو صرف 17 فیصد میں ہی اکتفا کرنا پڑا۔
دراصل ضمنی انتخابات میں سماج وادی پارٹی دلت مسلم اتحاد کے ووٹوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ مسلم اکثریتی رام پور سیٹ پر بی ایس پی کو صرف 2 فیصد ووٹ حاصل ہو سکے۔ جبکہ مختص نشستوں پر بھی منہ کی کھانی پڑی ہے۔ بی ایس پی امیدوار کا بلہا مختص نشست پر تیسرا مقام رہا، جبکہ زید پور بھی مختص سیٹ ہے جہاں پر وہ اپنی ضمانت بھی نہیں بچا سکی۔
لوک سبھا انتخابات میں بی ایس پی نے 10 سیٹیں حاصل کی تھیں جس کے بعد اس کی سیاست ایک مرتبہ پھر زندہ ہوتی نظر آ رہی تھی لیکن ضمنی انتخابات کے نتائج اس کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں نظر آ رہے ہیں۔ بی ایس پی حزب اختلاف کی اہم جماعت کے کردار میں آنے کے لئے جدوجہد کر رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں بی ایس پی کا فیصد کم ہونا اور تمام نشستوں پر اس کا ہار جانا اسے اپنی حکمت عملی پر غور و خوض کرنے پر مجبور کرے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔