بی جے پی کی ’واشنگ مشین‘ نے گزشتہ 9 سالوں میں کئی داغی و بدعنوان لیڈروں کو دھو ڈالا، آئیے اس فہرست پر نظر ڈالیں

کولکاتا میں ٹی ایم سی چیف اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ ’’بی جے پی واشنگ مشین ہے اور داغیوں کو دھو کر سفید کر دیتی ہے‘‘، ممتا بنرجی نے اس کا باضابطہ ڈیمو بھی دکھایا۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ویڈیو گریب</p></div>

تصویر ویڈیو گریب

user

قومی آواز بیورو

گزشتہ دنوں سی بی آئی اور ای ڈی کی کارروائی کے خلاف 14 پارٹیوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا تو وزیر اعظم نریندر مودی ان ایجنسیوں کا دفاع کرتے ہوئے دکھائی دیئے۔ انھوں نے کہا کہ ’’بدعنوانی میں ملوث لیڈر ایک ساتھ ایک اسٹیج پر آ رہے ہیں۔ کچھ پارٹیوں نے بدعنوان بچاؤ تحریک شروع کی ہے، لیکن کارروائی نہیں رکنے والی۔‘‘ پی ایم مودی کے اس بیان کے بعد اپوزیشن نے بھی جوابی حملہ کیا اور کولکاتا میں ترنمول کانگریس چیف ممتا بنرجی نے اسٹیج پر واشنگ مشین لگا کر بی جے پی پر طنز کسا۔ ٹی ایم سی چیف اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے کہا کہ ’’بی جے پی واشنگ مشین ہے اور داغیوں کو دھو کر سفید کر دیتی ہے۔‘‘ ممتا بنرجی نے اس کا باضابطہ ڈیمو بھی دکھایا۔

اپوزیشن پارٹیاں مودی حکومت پر لگاتار یہ الزام لگا رہی ہیں کہ مرکزی ایجنسیوں پر دباؤ بنا کر صرف اپوزیشن لیڈران کے خلاف ہی کارروائی کرائی جا رہی ہے اور بی جے پی یا اس کی حامی پارٹیوں کے داغی و بدعنوان لیڈران پر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ اس تعلق سے اکثر مثالیں بھی پیش کی جاتی رہی ہیں اور ان لیڈروں کے نام شمار کرائے جاتے رہے ہیں جو اپوزیشن پارٹی میں رہتے ہوئے سی بی آئی یا ای ڈی کی کارروائی کا سامنا کر رہے تھے، اور پھر جیسے ہی بی جے پی میں شامل ہوئے تو وہ الزامات سے یا تو پاک قرار دیئے گئے، یا پھر ان پر کارروائی بند ہو گئی۔ آئیے کچھ ایسے ہی لیڈروں پر سرسری نظر ڈالتے ہیں۔


1. ہیمنت بسوا سرما، آسام:

کانگریس کی ترون گگوئی حکومت میں وزیر رہے ہیمنت بسوا سرما کو شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ میں سی بی آئی نے ملزم بنایا تھا۔ سرما پر الزام تھا کہ شاردا گروپ کے ڈائریکٹر سدیپت سین سے 20 لاکھ روپے ہر مہینے لیے، تاکہ گروپ کا کام ٹھیک طریقے سے چل سکے۔ سرما سے آخری بار سی بی آئی نے 27 نومبر 2014 کو پوچھ تاچھ کی تھی۔ سرما نے اگست 2015 میں بی جے پی کی رکنیت اختیار کر لی، اور کانگریس کا الزام ہے کہ اس کے بعد سی بی آئی نے ہیمنت بسوا سرما کی فائل بند کر دی۔ ہیمنت اس وقت آسام کے وزیر اعلیٰ ہیں۔

2. شبھیندو ادھیکار، مغربی بنگال:

ممتا بنرجی حکومت میں قدآور لیڈر اور وزیر رہے شبھیندو ادھیکاری سے بھی سی بی آئی نے شاردا چٹ فنڈ گھوٹالے میں پوچھ تاچھ شروع کی تھی۔ ان پر الزام تھا کہ شاردا گروپ کے ڈائریکٹر سدیپت سین سے فائدہ اٹھایا تھا۔ شبھیندو پر بعد میں شاردا اسٹنگ آپریشن میں بھی پیسہ لینے کا الزام لگا، جس کی جانچ ای ڈی نے شروع کی۔ ترنمول کانگریس کا الزام ہے کہ شبھیندو جب ٹی ایم سی میں تھے تب جانچ ایجنسی انھیں پریشان کر رہی تھی، لیکن جیسے ہی بی جے پی میں گئے تو سارے معاملے میں انھیں کلین چٹ ملنے لگے۔ 2022 میں بنگال پولیس نے شبھیندو کے خلاف شاردا گھوٹالے میں جانچ شروع کی۔ فی الحال شبھیندو بنگال اسمبلی میں بی جے پی قانون ساز پارٹی کے لیڈر یعنی حزب مخالف لیڈر ہیں۔


3. جتیندر تیواری، مغربی بنگال:

آسنسول کے قدآور لیڈر جتیندر تیواری نے 2021 میں ترنمول کانگریس چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھام لیا تھا۔ اس وقت مودی حکومت میں وزیر رہے بابل سپریو نے اس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔ سپریو نے کہا تھا کہ کوئلہ چور اور اسمگلروں کو پارٹی میں لانے کا نقصان ہوگا۔ سپریو نے فیس بک پر پوسٹ لکھ کر کہا تھا کہ کوئلہ اسمگلنگ کیس میں سی بی آئی کی کارروائی کے بعد کچھ لیڈر بی جے پی میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں، میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ حالانکہ ہائی کمان نے تیواری کی انٹری کو ہری جھنڈی دے دی۔ ترنمول کا الزام ہے کہ تیواری کوئلہ اسمگلنگ میں شامل رہے ہیں اور ان پر سی بی آئی کی کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔

4. نارائن رانے، مہاراشٹر:

شیوسینا (ادھو گروپ) کا الزام ہے کہ نارائن رانے کو بھی بی جے پی نے واشنگ مشین میں ڈال کر پاک صاف کر دیا ہے۔ رانے ابھی مودی کابینہ میں وزیر ہیں۔ بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا نے ان پر آدرش سوسائٹی معاملے میں ہیرا پھیری کا الزام لگایا تھا۔ 2012 میں کریٹ نے سی بی آئی کو 1300 صفحات کا ایک دستاویز بھی سونپا تھا۔ 2017 میں کریٹ سومیا نے ای ڈی کو خط لکھ کر نارائن رانے کی ملکیت جانچ کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ کریٹ نے کہا تھا کہ رانے منی لانڈرنگ کر اپنا پیسہ سفید کر رہے ہیں۔ 2019 میں نارائن رانے بی جے پی میں شامل ہو گئے اور انھیں مرکز میں وزیر بنایا گیا۔ شیوسینا (ادھو گروپ) کا الزام ہے کہ رانے کو لے کر سی بی آئی اور ای ڈی نے جانچ روک دی ہے۔


5. بی ایس یدی یورپا، کرناٹک:

کرناٹک میں بی جے پی کا چہرہ بی ایس یدی یورپا پر بدعنوانی کا الزام لگا تھا۔ یدی یورپا کو اس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑی تھی۔ یدی یورپا پر 2011 میں 40 کروڑ روپے لے کر غیر قانونی کانکنی کو راستہ دینے کا الزام لگا تھا اور لوک آیُکت نے ان کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری کیا تھا۔ 2013 کے انتخاب میں یدی یورپا نے الگ پارٹی بنا کر انتخاب لڑا جس سے بی جے پی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد یدی یورپا کی گھر واپسی ہوئی۔ 2016 میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت نے یدی یورپا کو کلین چٹ دے دی تھی۔ کانگریس کا الزام ہے کہ بی جے پی میں آنے کے بعد یدی یورپا کے خلاف ایجنسی نے جانچ ٹھیک طرح سے نہیں کی۔

6. پروین ڈاریکر، مہاراشٹر:

2009 سے 2014 تک ایم این ایس رکن اسمبلی رہے پروین ڈاریکر پر 2015 میں ممبئی کوآپریٹو بینک میں 200 کروڑ روپے کے گھوٹالے کا الزام لگایا گیا تھا۔ بی جے پی نے اس معاملے کو زور و شور سے اٹھایا، جس کے بعد اقتصادی جرائم وِنگ کو کیس کی جانچ سونپی گئی۔ 2016 میں ڈاریکر بی جے پی میں شامل ہو گئے اور قانون ساز کونسل پہنچ گئے۔ 2022 میں اقتصادی جرائم وِنگ نے انھیں کلین چٹ دے دی۔ ڈاریکر ابھی ممبئی کوآپریٹو بینک سوسائٹی کے سربراہ ہیں۔


7. ہاردک پٹیل، گجرات:

پاٹیدار تحریک کے لیڈر ہاردک پٹیل پر بی جے پی حکومت کے دوران ملک سے غداری کا کیس درج کیا گیا تھا۔ ہاردک کو اس کی وجہ سے جلاوطنی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہاردک پر 20 کیس درج کیے گئے تھے۔ پٹیل گجرات انتخاب سے پہلے کانگریس چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ بعد میں کانگریس نے الزام عائد کیا کہ ملک سے غداری کے کیس میں بچنے کے لیے ہاردک نے یہ قدم اٹھایا۔ ہاردک ابھی ویرمگام سے بی جے پی کے رکن اسمبلی ہیں۔

یہ تو کچھ نام ہیں جو شمار کرائے گئے ہیں، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ان کے علاوہ سوون چٹرجی، یامنی جادھو اور بھاونا گولی جیسے لیڈروں کی ایک طویل فہرست ہے جن پر جانچ ایجنسی نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ یہ سبھی بی جے پی یا ان کی حامی پارٹیوں میں چلے گئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ ایسے لیڈران بھی ہیں جو اپوزیشن پارٹی میں رہے تو بی جے پی بدعنوانی کا الزام عائد کرتی رہی، پھر وہ بی جے پی میں شامل ہوئے اور الزامات سے پاک قرار دیئے گئے۔ آخر میں وہ پھر سے بی جے پی چھوڑ کر اپوزیشن پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ان میں دو اہم نام ہیں اجیت پوار (مہاراشٹر) اور مکل رائے (مغربی بنگال)۔


اجیت پوار مہاراشٹر کے قدآور لیڈر ہیں اور ان پر 70 ہزار کروڑ روپے کے سینچائی گھوٹالہ کا الزام 2014 سے پہلے بی جے پی لگاتی تھی۔ اس معاملے کی جانچ ای او ڈبلیو (اقتصادی جرائم وِنگ) کو سونپی گئی تھی۔ اجیت پوار کو لے کر بی جے پی لیڈر دیویندر فڈنویس کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ پوار کو جیل میں چکی پیسنے کی بات کہہ رہے تھے۔ 2019 میں ایک سیاسی اٹھا پٹخ میں اجیت بی جے پی کے ساتھ چلے گئے۔ پوار نے دیویندر فڈنویس کے ساتھ جا کر اتحاد کر لیا اور خود نائب وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس کے بعد گھوٹالے سے جڑی سبھی فائلیں بند کر دی گئیں۔ بعد میں اجیت پوار بی جے پی چھوڑ کر خود کی پارٹی یعنی این سی پی میں لوٹ آئے۔

اسی طرح مکل رائے کا بھی معاملہ ہے۔ سابق مرکزی وزیر مکل رائے پر 2015 میں شاردا چٹ فنڈ گھوٹالہ میں پیسہ لے کر چٹ فنڈ کمپنی سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگا تھا۔ مکل رائے نے 2017 میں بی جے پی جوائن کر لی، جس کے بعد انھیں پارٹی کا قومی نائب صدر بنایا گیا۔ 2019 میں مکل رائے نے دعویٰ کیا کہ سی بی آئی نے اس معاملے میں انھیں کلین چٹ دے دی ہے اور گواہ کے طور پر صرف پوچھ تاچھ کی ہے۔ حیرت انگیز طریقے سے وہ بھی 2021 میں دوبارہ ترنمول کانگریس میں شامل ہو گئے۔ ان کی بی جے پی اعلیٰ قیادت سے کچھ ناراضگی ہو گئی تھی جس کے بعد پارٹی چھورنے کا فیصلہ کر لیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔