بی جے پی کی رکنیت سازی مہم: کارکنان اور عوام میں بے چینی اور دھوکہ دہی کے الزامات

بی جے پی کی رکنیت سازی مہم میں عوام اور کارکنان کو دھوکے سے شامل کیا جا رہا ہے۔ کارکنان موبائل فون کے ذریعے افراد کی معلومات لے کر ان کو پارٹی کا رکن بنا رہے ہیں، جبکہ کئی افراد کو اس کا علم بھی نہیں!

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

امن گپتا

بی جے پی کی رکنیت سازی مہم 2 ستمبر کو شروع ہوئی اور اب آخری مرحلے میں ہے، جس کا مقصد پورے ملک میں دس کروڑ نئے اراکین بنانا ہے۔ مہم کی کامیابی کے بارے میں روز خبریں آ رہی ہیں، لیکن یہ مہم کیسے چل رہی ہے، یہ جاننا دلچسپ ہے۔

کچھ کارکنان اس مہم میں خود کو مشکل میں پاتے ہیں۔ ایک کارکن، سنجیو، کہتے ہیں، ’’اپنے سو اراکین کے علاوہ، مجھے مزید پانچ ہزار اراکین بنانے کو کہا گیا ہے، جو بڑے لیڈران کی طرف سے ہدایت تھی۔ تاہم، موجودہ سیاسی حالات کی وجہ سے یہ کام آسان نہیں ہے۔ لوگ اب بی جے پی سے جڑنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں ناراضگی ہے اور دس سال پہلے والا ماحول نہیں رہا، جب سب کچھ مودی جی کے نام پر ہوتا تھا۔‘‘

جب اتر پردیش میں رکنیت سازی مہم کا باقاعدہ افتتاح ہوا تو کچھ بڑے لیڈر دہلی سے لکھنؤ آئے اور اسی دوران ریاست کے ڈپٹی چیف منسٹر کیشو موریہ بھی دہلی چلے گئے اور وہاں کچھ دن رہے۔ اُدھر، وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اتنے دنوں تک گورکھپور میں مقیم رہے کہ ٹیچرز ڈے کی تقریب، جو ہمیشہ لکھنؤ میں ہوتی تھی، گورکھپور منتقل کرنا پڑی۔

پہلے دن سے ہی مہم پر یوگی اور کیشو موریہ کے درمیان اختلافات کا اثر نظر آنے لگا۔ رپورٹ کے مطابق، یوگی آدتیہ ناتھ نے 53000 اراکین بنائے جبکہ کیشو موریہ صرف 1500 اراکین بنا سکے۔ پارٹی کے ریاستی صدر بھوپندر چودھری کے اعداد و شمار 200 اراکین سے بھی آگے نہیں بڑھے۔


مہم میں کارکنان کو ٹارگٹ پورا کرنے کے لیے پیسے دیے جا رہے ہیں، ایک رکن بنانے کے بدلے پانچ، دس، پندرہ یا بیس روپے دیے جاتے ہیں۔ ایک کارکن سونیا کہتی ہیں، ’’ہم چھوٹے کارکنان بڑے لیڈروں کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ لوگ پارٹی میں شامل نہیں ہونا چاہتے یا کہ ماحول ہمارے حق میں نہیں ہے۔‘‘

بعض کارکنان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر اراکین فرضی ہیں۔ ایک کارکن دیپک نے کہا کہ انہیں بس ایک او ٹی پی چاہیے ہوتا ہے، باقی ڈیٹا وہ خود ہی بھرتے ہیں۔ دیپک کا کہنا ہے کہ "میں نے جنہیں بھی رکن بنایا، ان کی تفصیلات غلط ہیں، کسی کا نام غلط ہے، کسی کی عمر یا پتہ۔‘‘

دہلی میں ایک تکنیکی کمپنی ’گراموانی‘ میں کام کرنے والے سلطان احمد اس مہم کو لوگوں کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کرنے کی مہم قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف اپنا موبائل نمبر دے رہے ہیں، جبکہ ان کی مکمل معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔‘‘

یہ مہم مکمل طور پر ڈیجیٹل طریقے سے چلائی جا رہی ہے، جس میں فون پر مسڈ کال یا ریفرل کوڈ کے ذریعے اراکین بنائے جا رہے ہیں۔ ہمیرپور کے ایک بوٹھ صدر اروند تیواری کا کہنا ہے کہ "کارکنوں کو جوش دلانے کے لیے انہیں اراکین بنانے کے ٹارگٹ دیے گئے ہیں اور ہر رکن بنانے پر انہیں 15 سے 20 روپے دیے جاتے ہیں۔‘‘


ہمیر پور کی راٹھ اسمبلی سیٹ پر بی جے پی کے ایک بوتھ صدر اروند تیواری کہتے ہیں، ’’کارکنوں میں جوش و خروش پیدا کرنے کے لیے ضلعی عہدیداروں یا رکن پارلیمنٹ اور رکن اسمبلی نے اراکین کی تقرری کا ٹھیکہ دیا ہے۔ جو بھی یہ کام کرے گا اسے ہر بھرتی پر 15-20 روپے دیے جائیں گے۔ اسی طرح کا وعدہ بوتھ صدور کو بھی دیا گیا ہے۔ جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ راشن کی دکانوں، اسکولوں، کوچنگ سینٹرز میں جا رہے ہیں اور لوگوں کو ممبر بنا رہے ہیں، جس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کو خبر تک نہیں ہے۔‘‘

سماجوادی پارٹی کے چندر شیکھر چودھری کا کہنا ہے کہ لوگوں کو سرکاری اسکیموں کا لالچ دے کر دھوکہ دہی سے رکن بنایا جا رہا ہے۔

لوگوں کو کس طرح ممبر بنایا جا رہا ہے اس کی مثال: ایک سادہ گھریلو خاتون دیپا بتاتی ہیں کہ ایک دن ان کے جاننے والے خاندان کا ایک فرد، جو ہمیر پور ضلع کی بی جے پی راٹھ نگر یونٹ میں ایک عہدہ رکھتا ہے، ان کے گھر آیا۔ اس نے دیپا سے اس کا موبائل فون مانگا اور پانچ منٹ بعد واپس کر دیا۔ دیپا کہتی ہیں، ’’ہم نے سوچا کہ شاید کسی کو فون کرنا ہوگا۔ اس سے کچھ پوچھا تک نہیں۔ دو تین دن کے بعد میری بیٹی نے کسی کام سے میرا فون لیا اور پھر پتہ چلا کہ وہ بی جے پی کی رکن بن گئی ہیں۔ سیما، ریتا، پردیپ، راگنی، سونم، اکھل، نکھل جیسے لوگوں کو بھی بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ وہ کسی پارٹی کے ممبر بن گئے ہیں۔


ایک دلچسپ معاملہ گورنمنٹ پولی ٹیکنک کالج کے کلرک سندیپ ساہو (نام تبدیل) کا ہے۔ ایس پی اور بی جے پی دونوں نے انہیں اپنا ممبر بنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’جن لوگوں نے مجھے ان پارٹیوں سے جوڑا وہ میرے دوست ہیں اور مختلف پارٹیوں سے وابستہ ہیں۔ کام کے دوران میں نے کبھی کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کا نہیں سوچا تھا اور دونوں سے انکار کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ کا نام اور پتہ تبدیل کریں تو آپ کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ایک دن میرے موبائل پر ایک پیغام آیا جس کے مطابق میں اب بی جے پی کا رکن ہوں۔‘‘ سندیپ جیسے بہت سے لوگ ہیں جنہیں ان کے دوستوں اور خاندان والوں نے بی جے پی کا ممبر بنایا ہے۔

ایسے معاملات صرف اتر پردیش تک ہی محدود نہیں ہیں۔ کچھ دن پہلے پرکاش بین دربار اپنے شوہر کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے وِس نگر میں انجکشن لگوانے کے لیے سرکاری صحت مرکز گئی تھیں۔ وہاں ایک عملے نے اس سے اس کا موبائل نمبر اور او ٹی پی مانگا۔ پرکاش بین کے او ٹی پی بتانے کے ساتھ ہی بی جے پی کا رکن بننے کا پیغام آیا؟ سریندر نگر، گجرات میں اسکولی بچوں اور ان کے والدین اور نرمدا ضلع میں منریگا کارکنوں کو اسی طرح کی دھوکہ دہی کے ذریعے ممبر بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔

بھاو نگر میں ایک ہزار ممبر بنانے کے بدلے پانچ سو روپے دینے کا معاملہ سامنے آیا۔ سریندر نگر واقعہ میں کماری ایم آر گارڈی ودیالیہ کے بچوں کو رکنیت دی گئی ہے۔ جب یہ معاملہ سامنے آیا تو ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر نے اسکول کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا، اس کے بعد اسکول نے کہا کہ راشن کارڈ کو آدھار سے لنک کرنے کے لیے بچوں کو اپنے والدین کے موبائل فون لانے کو کہا گیا، ممکن ہے کہ بچے خود ہی جڑ گئے ہوں!


مدھیہ پردیش کانگریس نے حال ہی میں بھوپال میں ایک سرکاری راشن کی دکان پر بی جے پی کے ارکان بنانے ک ویڈیو جاری کی تھی۔ راشن کی دکانوں میں کاؤنٹر لگا کر لوگوں کو ممبر بنایا جا رہا تھا اور رجسٹر میں ان کا اندراج کیا جا رہا تھا۔ یہ بات سامنے آئی کہ اجین میونسپل کارپوریشن میں آؤٹ سورسنگ پر کام کرنے والے ملازمین کو مہم میں تعینات کیا گیا ہے۔

اس طرح کی دھوکہ دہی کر کے بی جے پی اپنی مہم میں اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کو سرفہرست بنا رہی ہے۔ 2 سے 25 ستمبر کے درمیان صرف ان دو ریاستوں میں ایک کروڑ ممبران کا ہدف حاصل کیا گیا تھا۔ بی جے پی کا ایک کارکن اس سب کے پیچھے اپنی مجبوری بتاتا ہے، ’’اگر میں یہ نہ کرتا تو میری موجودہ پانچ سو پچاس کی تعداد پچاس تک نہ پہنچتی!‘‘

(اس مضمون میں جن بی جے پی کارکنان کے بیانات شامل ہیں، ان کی شناخت کی حفاظت کے لیے ان کے نام تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ یہ رپورٹ followupstories.com سے لی گئی ہے اور ترمیم شدہ ہے۔)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔