بی جے پی رہنما کی زہریلی گیس سے موت کا قہر

ایک آر ٹی آئی درخواست کے جواب میں اسسٹنٹ کمشنر آف ڈرگس الہٰ آباد نے یہ اعتراف کیا ہے کہ فرم کے پاس نہ تو نائٹرس آکسائیڈ کو بنانے کا لائسنس ہے اور نہ ہی اس کو فراہم کرنے کا۔

تصویر بی ایچ یو
تصویر بی ایچ یو
user

وشو دیپک

وارانسی :ہندوستان میں انسانی جان کی قیمت صفر کے برابر ہے لیکن بی جے پی کے دور اقتدار میں تو صورت حال خوف ناک حد تک خراب ہوتی جا رہی ہے ۔ کسی بھی شعبہ میں ’اچھے دن‘ دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ ہر طرف سے کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کی خبریں موصول ہونا روز کا معمول بن چکا ہے۔ لیکن کس سے سوال کیا جائے اور کون جواب دے؟

اتر پردیش سے لاپرواہیوں کے یکے بعد دیگرے کئی معاملے سامنے آئے ہیں اور اس میں ایک نیا معاملہ اور جڑ گیا ہے۔ جون ماہ کے دوران بنارس ہندو یونیورسٹی (بی ایچ یو ) سے وابستہ سر سندر لال (ایس ایس ایل ) ہاسپیٹل میں ڈاکٹروں کی دی گئی ’زہریلی گیس ‘کی وجہ سے تین مریضوں کی اموات ہو گئیں ۔

گیس کی فراہمی ایک فرم کی طرف سے کی گئی تھی جس کے مالک الہ آباد نارتھ سے بی جے پی کے رکن اسمبلی ہرش وردھن باجپئی ہیں۔ ویسے غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق 10 سے زائد افراد کی اموات ہوئیں ہیں۔

سنٹرل ڈرگس اسٹینڈرڈ کنٹرول آرگنائزیشن (سی ڈی ایس سی او) اور فوڈ سیفٹی اینڈ ڈرگس ایڈمنسٹریشن (یو پی ) نے ایک مشترکہ تحقیقات کی اور جولائی میں اس نتیجے پر پہنچیں کہ پریر ہٹ انڈسٹریز پرائیویٹ لمٹیڈ نے اسپتال کو ’نان فارما کوپیل ‘ نائٹرس آکسائیڈ کی فراہمی کی۔ واضح رہے کہ اگر کوئی ڈرگ یا کیمیائی مرکب نان فارماکوپیل ہوتی ہےتو وہ انسانوں کے استعمال کے قابل نہیں ہوتی اور اسے پریسکرائب نہیں کیا جاتا ۔نائٹرس آکسائیڈ کو زیادہ تر اینستھیسیا(بے ہوش کرنا )اور اینلجیسیا (سن کرنا )کے لیے استعمال کیا جاتاہے۔ اس کا سرجری اور ڈنٹسٹری میں سب سے زیادہ استعمال ہوتاہے۔

’قومی آواز‘ کو جو دستاویزات حاصل ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ بی ایچ یو نے اپریل کے مہینے میں پریر ہٹ انڈسٹریز پرائیویٹ لمٹیڈ کے ساتھ معاہدہ کیا۔ سات مہینوں کے دوران کمپنی نے معاہدہ حاصل کرنے کے لئے دو بار کوٹیشنز دیئے ، ایک بار 5 مئی 2016 کو اور اس کے بعد 20 نومبر 2016 کو۔ یہ بات 11 تاریخ کو جاری کئے گئے ایک خط میں تحریر ہے جس پر میڈیکل سپرنٹنڈنٹ او پی اپادھیائے نے دستخط کئے ہیں اور جس کی نقل انیتھیزیالوجی کے سربراہ کے نام سے جاری کی گئی ہے۔

جس فرم نے اسپتال کو نان فارماکوپیل گیس فراہم کی بلکہ اس کے پاس کلینکل گیسوں کو پیدا کرنے کا صحیح لائسنس بھی نہیں تھا۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے وکیل رویندر سنگھ کی داخل کی گئی آر ٹی آئی کے جواب میں الہ آباد کے اسسٹنٹ کمشنر آف ڈرگس نے یہ اعتراف کیا ہے کہ فرم کے پاس نہ تو نائٹرس آکسائیڈ گیس یا آکسیجن پیدا کرنے کا کوئی لائسنس ہے اور نہ ہی انہیں فراہم کرنے کا۔

آرٹی آئی کے جواب کے مطابق، ’’پریر ہٹ انڈسٹریز لمٹیڈ کو محکمہ ادویات کی طرف سے طبی استعمال کی گیس پیدا کرنے کا کوئی لائسنس نہیں دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں مذکورہ کمپنی کو نائٹرس آکسائیڈ یا آکسیجن گیس پیدا کرنے کا بھی لائسنس نہیں دیا گیا ہے‘‘۔

الہ آباد سے فون پر باجپئی کا کہنا ہے کہ ’’میری فرم اسپتال کے لئے گیس فراہم کرتی ہے۔مجھے نہیں پتہ کہ لوگ فراہم کردہ گیس کی وجہ سے مارے گئے ہیں یا پھر میڈیکل لاپرواہی کی وجہ سے۔ میرے پاس معاہدہ کے کاغذات موجود ہیں اور معاہدہ جاری ہونے کے وقت کوئی بے ضابطگی یا طرف داری نہیں کی گئی تھی ۔‘‘

اپنے خلاف سیاسی سازش کا الزام لگاتے ہوئے باجپئی نے کہا ہے کہ لائسنس ان کی قابلیت کی بنا پر دیا گیا ہے۔ آر ٹی آئی کے جواب پر کوئی تبصرہ نہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ میرے پاس معاہدہ کے حوالے سے سبھی دستاویزات اور کاغذات موجود ہیں۔ اگر کوئی تسلی کے لئے ان کاغذات کو دیکھنا چاہے تو میرے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوئے ہیں۔‘‘

ہم نے یہ پتہ لگانے کے لئے کہ ٹینڈر جاری کیا گیا تھا یا نہیں، سر سندر لال (ایس ایس ایل )اسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ او پی اپادھیائے تک رسائی کی بھی کوششیں کی لیکن انہوں نے میسجز کا جواب نہیں دیا۔

ایک میڈیا ویب سائٹ ’میدیا وِجل ڈاٹ کام‘ کا دعویٰ ہے کہ پہلے نائٹرس آکسائیڈ فراہم کرنے کا ٹینڈر ایک بین الاقوامی فرم ’لنڈے‘ کو دیا گیا تھا جسے اپریل میں منسوخ کر دیا گیا اور اس کے بعد باجپئی کی فرم پریرہٹ انڈسٹریز لمٹیڈ کے نام معاہدہ جاری کر دیا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔