کرناٹک حکومت گرانے والے مبینہ بیان سے بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا کو مشکلات کا سامنا، ایف آئی آر درج

بسن گوڑا کے جس مبینہ بیان پر تنازعہ پیدا ہو گیا ہے اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان کی پارٹی کی مرکزی قیادت اور پارٹی اراکین اسمبلی اس طرح کی کسی بھی مہم اور خرید و فروخت کے خلاف ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ایف آئی آر / آئی اے این ایس</p></div>

ایف آئی آر / آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

کرناٹک میں جاری سیاسی ہلچل کے درمیان بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا آر پاٹل کے لیے بری خبر سامنے آئی ہے۔ ایک طرف وزیر اعلیٰ سدارمیا کے خلاف ای ڈی کی کارروائی سے ہلچل مچی ہوئی ہے، اور دوسری طرف بسن گوڑا کے ایک مبینہ بیان نے اس ہلچل میں اضافہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مبینہ طور پر دیے گئے اپنے بیان میں بسن گوڑا نے کہا ہے کہ کرناٹک مین حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لیے ایک ہزار کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ اس معاملے میں اب ان کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلورو میں کانگریس کارکن نے بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ بسن گوڑا کے مذکورہ متنازعہ بیان پر 30 ستمبر کو کرناٹک کے نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار نے بھی اپنا سخت رد عمل ظاہر کیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’بی جے پی کے ایک سینئر رکن اسمبلی کے دعویٰ کو دیکھتے ہوئے قانونی متبادل تلاش کیے جائیں گے۔ بی جے پی کے ایک بڑے لیڈر نے ریاست کی کانگریس حکومت کو گرانے اور وزیر اعلیٰ بننے کے لیے بڑی رقم الگ سے رکھی ہوئی ہے۔‘‘


قابل ذکر ہے کہ کرناٹک کانگریس کے لیڈران بی جے پی رکن اسمبلی بسن گوڑا کے جس بیان کا تذکرہ کر رہے ہیں، اس میں انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی پارٹی کی مرکزی قیادت اور اراکین اسمبلی اس طرح کی کسی بھی مہم اور اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کے خلاف ہیں۔ یہ حکومت اپنے آپ ہی گر جائے گی۔

بہرحال، کرناٹک کانگریس صدر اور نائب وزیر اعلیٰ ڈی کے شیوکمار کا کہنا ہے کہ میں نے ریاستی کانگریس کی ایک میٹنگ طلب کی ہے۔ بی جے پی نے ہماری حکومت کو گرانے کے لیے 1200 کروڑ روپے رکھے ہیں۔ اس بارے میں ہم اپنی قانونی ٹیم کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے۔ میں نے اس بارے میں اعلیٰ کمان سے بھی بات کی ہے اور ان کو پوری جانکاری دی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ سچائی کا پتہ لگانے کے لیے اس معاملے کی جانچ انکم ٹیکس محکمہ کو کرنی ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔