اتر پردیش: دو مراحل کی منفی رپورٹ دیکھ کر بی جے پی خیمہ میں مایوسی

اتر پردیش میں تیسرے مرحلے کی ووٹنگ سے پہلے بی جے پی بری طرح مایوس نظر آ رہی ہے۔ پارٹی کے سینئر لیڈروں کا ماننا ہے کہ پہلے دو مراحل میں بی جے پی کو کافی نقصان ہوا ہے اور اس کی وجہ موجودہ ایم پی ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بشواجیت بنرجی

بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ پہلے کے منصوبے کے مطابق اگر پارٹی نے اپنے 40 فیصد موجودہ اراکین پارلیمنٹ کو بدلا ہوتا تو شاید بی جے پی 2014 کے مقابلے نصف سیٹیں تو جیت ہی جاتی، لیکن اب حالات بے حد خراب نظر آ رہے ہیں۔ دراصل بی جے پی کے اندیشے ان خبروں کی بنیاد پر ہیں جن کے مطابق پہلے دو مراحل کی 16 سیٹوں میں سے پارٹی محض 5 سیٹیں ہی جیت سکتی ہے۔ نام نہ بتانے کی شرط پر بی جے پی کے سینئر لیڈر نے کہا کہ ’’بوتھ کارکنان سے جو خبریں ملی ہیں وہ مایوس کن ہیں۔ اتحاد کافی اچھا کر رہا ہے۔ دلت اور مسلم متحد ہو کر ووٹ ڈال رہے ہیں جو کہ بی جے پی کے لیے اچھے اشارے نہیں ہیں۔‘‘

غور طلب ہے کہ بی جے پی کے انتخاب کا سارا دارومدار بوتھ مینجمنٹ پر رہتا ہے۔ اتر پردیش کی سبھی پارٹیوں میں سے صرف بی جے پی ہی ایسی پارٹی تھی جس نے بوتھ سطح پر تیاریاں کی تھیں۔ پارٹی نے بوتھ چیف اور پنّا چیف (ووٹر لسٹ کے ہر صفحہ کے لئے ایک ذمہ دار) مقرر کیے تھے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ حامیوں کو پولنگ بوتھ تک لا کر پارٹی کے حق میں ووٹ کرا سکیں۔ لیکن پہلے دو مرحلہ کی جو رپورٹ اتوار کو پارٹی کے سپرد کی گئی ہے، اس کے نتیجے بی جے پی کے لیے مایوس کن ہیں۔

بی جے پی لیڈر نے کہا کہ ’’موجودہ اراکین پارلیمنٹ کے خلاف لوگوں میں غصہ ہے۔ لوگ تو بی جے پی کو واپس اقتدار میں لانا چاہتے ہیں اور انھیں اگلے وزیر اعظم کی شکل میں نریندر مودی ہی چاہیے، لیکن اراکین پارلیمنٹ کے خراب کام اور ان کے خلاف بنے ماحول اور تشہیر سے بی جے پی کو کافی نقصان ہوا ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اگر پہلے سے طے منصوبہ کے مطابق پارٹی نے 40 فیصد اراکین پارلیمنٹ کو بدلا ہوتا تو حالات کچھ دیگر ہوتے۔

بی جے پی اتر پردیش کی سبھی سیٹوں کے لیے امیدواروں کا اعلان کر چکی ہے اور اس نے صرف 17 اراکین پارلیمنٹ کو ہی بدلا ہے، جو کہ صرف 20 فیصد کے آس پاس ہے۔ ان میں بہرائچ سے ساوتری بائی پھولے بھی ہیں جنھوں نے عین موقع پر بی جے پی چھوڑ کر کانگریس کا دامن تھام لیا تھا۔ پھر بھی بی جے پی کو پہلے دو دور میں ہوئی 60 فیصد ووٹنگ سے بھروسہ ہے۔ امید تھی کہ ووٹنگ فیصد نیچے گرے گا کیونکہ ووٹر ناراض ہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پہلے مرحلہ میں تقریباً 2 فیصد کم ووٹنگ ہوئی تھی جب کہ دوسرے دور میں تقریباً ایک فیصد زیادہ ووٹ پڑے۔ بی جے پی لیڈروں کا ماننا ہے کہ یہ پہلی بار کے ووٹر ہیں جو بڑی تعداد میں گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے آئے تھے۔ بی جے پی لیڈر نے دعویٰ کیا کہ ’’اب جاٹوں کو ہی لیجیے، پرانے لوگوں نے اتحاد کو ووٹ دیا جب کہ نوجوانوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔‘‘

اس جوڑ توڑ کے باوجود بی جے پی تیسرے دور کے لیے نروس ہی نظر آ رہی ہیں کیونکہ اس دور میں اصل لڑائی یادووں کے گڑھ میں ہے، جہاں مودی لہر میں بھی بی جے پی کو کامیابی نہیں ملی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔