ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد کرناٹک بی جے پی میں انتشار
بی جے پی نے کل 224 میں سے 189 حلقوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور فہرست میں 52 نئے چہروں کو موقع دیا گیا ہے۔
پہلی لسٹ جاری ہوتے ہی بی جے پی میں بوال شروع ہ گیا ۔ کرناٹک میں دوبارہ حکومت بنانے کی کوشش کرنے والی بی جے پی کے لیے اس کے اپنے لوگوں نے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ پارٹی نے جیسے ہی اپنے امیدواروں کی پہلی لسٹ منگل کو جاری کی، کچھ سابق امیدواروں نے لسٹ میں جب اپنا نام نہیں دیکھا تو پھر انہوں نے بغاوت شروع کر دی ۔ سابق وزیر اعلی جگدیش شیٹر، جو 6 بار ایم ایل اے رہ چکے ہیں، کو بی جے پی نے اس بار ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور ان سے دوسروں کے لیے راستہ تیار کرنے کو کہا ہے۔شیٹر نے پارٹی کے اس فیصلے پر اپنا اختلاف ظاہر کیا ہے اور بہت ممکن ہے کہ انہیں آج دہلی جانا پڑے ۔
نیوز پورٹل آج تک پر شائع خبر کے مطابق شیٹر نے کہا،’’مجھے ہائی کمان کی طرف سے بھی فون آیا کہ مجھے دوسروں کو موقع دینا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں 30 سال سے بی جے پی کے لیے کام کر رہا ہوں اور پارٹی بنائی ہے۔ میں نے بطور وزیراعلیٰ بھی کام کیا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میں 6 بار ایم ایل اے منتخب ہو چکا ہوں، میرے الیکشن نہ لڑنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا سروے کہتے ہیں کہ میں جیت نہیں رہا ہوں؟ میں ہائی کمان سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے ساتویں بار الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ میرا خاندان جن سنگھ کے زمانے سے آر ایس ایس اور بی جے پی سے وابستہ ہے۔ اگر مجھے پہلے بتا دیا جاتا تو یہ پھر بھی یہ بہتر ہوتا۔ مجھے اس فیصلے سے دکھ ہوا ہے۔ میں ہر قیمت پر الیکشن لڑوں گا۔‘‘
واضح رہے جگدیش شیٹر نے سیاست میں آنے سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ میں فعال کردار ادا کیا۔ شمالی کرناٹک کے علاقے میں شیٹر کی گرفت بہت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ شیٹر یدیوپا کے بعد ریاست میں بی جے پی کے دوسرے سب سے قد آور لنگایت رہنما ہیں۔ ہبلی-دھارواڑ سنٹرل سیٹ ان کی روایتی سیٹ مانی جاتی ہے۔ دسمبر 1955 میں پیدا ہوئے شیٹر 2012 سے 2013 تک کرناٹک کے 21 ویں وزیر اعلیٰ رہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے قانون ساز اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور اسپیکر کا کردار بھی ادا کیا ہے۔ ودیارتھی پریشد میں شامل ہونے سے پہلے وہ آر ایس ایس کے سرگرم کارکن تھے۔ وہ پہلی بار 1994 میں اسمبلی پہنچے اور اس کے بعد 1996 میں انہیں ریاست میں بی جے پی کا سکریٹری بنایا گیا۔
جب ایس ایم کرشنا کی قیادت میں کانگریس کی حکومت بنی تو شیٹر اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ سال 2005 میں انہیں ریاست میں بی جے پی کا ریاستی صدر مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد، 2006 میں، انہیں ایچ ڈی کمارسوامی کی قیادت والی جے ڈی ایس-بی جے پی مخلوط حکومت میں وزیر محصول کی ذمہ داری دی گئی۔ 2008 میں پارٹی کی جیت کے بعد، شیٹر بلا مقابلہ اسمبلی کے اسپیکر منتخب ہوئے۔ 2012 میں بی جے پی نے کرناٹک کی کمان جگدیش شیٹر کو سونپنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، ان کی قیادت میں ہوئے 2013 کے اسمبلی انتخابات میں، بی جے پی کو کراری شکست کا سامنا کرنا پڑا اور کانگریس ریاست میں برسراقتدار آئی۔ انتخاب کے بعد شیٹر کو اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ دیا گیا۔
بی جے پی نے کل 224 میں سے 189 حلقوں کے لیے اپنے امیدواروں کا اعلان کیا ہے اور فہرست میں 52 نئے چہروں کو موقع دیا گیا ہے۔ سلیا سیٹ سے ایم ایل اے اور کابینہ وزیر انگارا سمیت کم از کم آٹھ ایم ایل ایز کو ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ بی جے پی کے کرناٹک انچارج ارون سنگھ نے بتایا کہ فہرست میں 32 امیدوار او بی سی، 30 درج فہرست ذات اور 16 درج فہرست قبائل سے ہیں۔ پارٹی ذرائع کے مطابق، 51 امیدوار لنگایت اور 41 ووکلیگا ہیں، جو ریاست کی دو بڑی برادریاں ہیں۔
پارٹی نے ابھی تک شیموگا اور ہبلی دھارواڑ سینٹرل کے ٹکٹوں کا اعلان نہیں کیا ہے، جن سیٹوں کی نمائندگی سینئر لیڈر کے ایس ایشورپا اور جگدیش شیٹر کرتے ہیں۔
ایک اہم اقدام میں، پارٹی نے اعلان کیا کہ سینئر وزراء وی سومنا اور آر اشوک بالترتیب ورونا اور کنکا پورہ سے سابق وزیر اعلیٰ سدھارمیا اور کرناٹک کانگریس کے سربراہ شیوکمار کے خلاف انتخاب لڑیں گے ۔ سابق وزیر سی پی یوگیشور ایک بار پھر جنتا دل (سیکولر) لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی سے چننا پٹنہ میں مقابلہ کریں گے۔
وجئے نگر میں پارٹی نے وزیر آنند سنگھ کے بجائے ان کے بیٹے سدھارتھ سنگھ کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ اتھانی میں اس نے سابق نائب وزیر اعلیٰ لکشمن ساوادی کو ٹکٹ نہیں دیا ہے اور ان کی جگہ مہیش کمتھلی کو ٹکٹ دیا ہے۔ مہیش نے کانگریس چھوڑ کر 2019 میں بی جے پی کی حکومت بنانے میں مدد کی تھی ۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ساوادی اب کانگریس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ زیادہ تر ایم ایل اے جو منحرف ہو کر بی جے پی میں شامل ہوئے اور بی جے پی کو اقتدار میں لانے میں مدد کی اور بعد میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتنے میں بھی کامیاب رہے، انہیں دوبارہ ٹکٹ دیا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔